موسمی تبدیلیاں ہلاکت کا سبب ہیں


\"mujahid

پاکستان نے اقوام متحدہ میں منعقد ہونے والی ایک پروقار تقریب میں دسمبر 2015 میں طے پانے والے پیرس معاہدہ کی توثیق کر دی ہے۔ اس معاہدہ کے تحت دنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں اضافہ کو 2 درجہ سینٹی گریڈ سے کم رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک مالی وسائل فراہم کرنے کے علاوہ اپنی صنعتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کریں گے۔ تا کہ صنعتی آلودگی کے سبب دنیا میں ماحولیاتی کثافت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ دنیا کے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ کرہ ارض پر بڑھتا ہوا درجہ حرارت حیاتیات اور پیداوار کے لئے نہایت نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ سے گلیشیئر پگھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس طرح حرارت کو کنٹرول کرنے کی فوری اور اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نیویارک کی تقریب میں پیرس معاہدہ کی توثیق کی دستاویزات پر دستخط کئے اور پاکستان کی طرف سے ماحولیات کی بہتری کے لئے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے اور صورتحال کو بدلنے کے لئے عالمی کوششوں میں بھرپور شرکت کر رہا ہے۔ ملک میں اس مقصد کے لئے نگران ادارے قائم کئے جا رہے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کی صورتحال کا جائزہ لیں گے اور بہتری کے لئے اقدامات کریں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کا 5 فیصد بجٹ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی روک تھام پر صرف کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کو بھی مالدار ملکوں کی طرف قائم کئے گئے 100 ارب ڈالر کے فنڈ میں سے حصہ ملنا چاہئے تا کہ وہ اس قدرتی چیلنج کا مقابلہ کر سکے۔ پاکستانی وزیر نے بتایا کہ پاکستان اس وقت سنگین صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ ملک کے 5 ہزار کے لگ بھگ گلیشیئر دنیا کے دیگر خطوں میں مقابلے میں تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیر متوقع اور شدید سیلاب نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سیلاب اور طغیاتی کی وجہ سے ملک کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔ قومی پیداوار بھی ان آفات کی وجہ سے متاثر ہوئی ہیں۔ اس لئے پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاری سے آگاہ ہے اور اس میں بھرپور حصہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دنیا بھر میں ماحولیات کے حوالے سے رائے عامہ یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ اگر اس دنیا میں آباد لوگوں نے آلودگی اور موسمی حالات کو خراب کرنے کے لئے منصوبوں کو ترک نہ کیا تو یہ دنیا تیزی سے ایک نامعلوم تباہی سے دوچار ہو جائے گی۔ اگرچہ ماحولیات اور دنیا میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر کام کرنے والے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا اس وقت ماحولیاتی تباہی کی جس صورتحال کا سامنا کر رہی ہے، وہ دراصل انسان کی اپنی غلط کاریوں کا نتیجہ ہے۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ترقی ضرور ہوئی اور پیداواری صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا لیکن اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں درجہ حرارت بڑھنے ، گلیشیئر پگھلنے اور سطح سمندر بلند ہونے سے اس وقت بنی نوع انسان کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ میں جمعہ کے روز پیرس معاہدہ کی توثیق کے لئے منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے کہا کہ ماحولیات کی بہتری کے لئے فوری اقوام کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر وقت ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سطح آب میں بلندی کی وجہ سے دنیا کے چھوٹے چھوٹے پندرہ ممالک کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ انسان کی عدم توجہی جاری رہنے کی صورت میں ان میں سے کئی ملک صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں نے ماحولیات پر تحقیقات سے پہلے صنعتی انقلاب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیداواری صلاحیتوں میں تو اضافہ کیا لیکن وہ اس بات سے بے خبر رہے کہ اس لاپرواہی کے سنگین ماحولیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور فطرت انسان کی اس بے راہروی پر شدید ردعمل ظاہر کر سکتی ہے۔ یہ معلومات سامنے آنے کے بعد کئی دہائیوں تک ترقی یافتہ ملک یہ تسلیم کرنے پر راضی نہیں تھے کہ ان کی صنعتیں آہستہ آہستہ دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ اس دوران کئی کم ترقی یافتہ ملکوں نے بھی ترقی اور کامیابی کی دوڑ میں شامل ہو کر اس میں اپنا حصہ وصول کرنے شروع کر دیا۔ ان ملکوں میں خاص طور سے بھارت اور چین کا نام لیا جاتا ہے۔ صنعتوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس گلوبل وارمنگ (global warming) کا سبب بن رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں بیداری کی تحریک سب سے پہلے یورپ میں شروع ہوئی اور وہاں گرین پارٹیوں نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی۔ اس طرح میڈیا اور ماہرین نے مل کر رائے عامہ کو یہ باور کروایا کہ صنعتوں کی اصلاح اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے کثیر سرمایہ سے صنعتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا لیکن سرمایہ دار طبقہ کے نمائندے اب تک اس تحقیق کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ ماحول میں تبدیلی انسان کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے رونما ہو رہی ہے۔ وہ اسے فطری عمل قرار دے کر کاربن کے اخراج کو محدود کرنے یا متبادل انرجی کے ذرائع تلاش کرنے کے خیال کو مسترد کرتے ہیں۔ خاص طور سے امریکہ میں یہ رجحان عام ہے۔ موجودہ صدارتی دوڑ میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ ماحولیات کے اندیشوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
امریکہ 6 برس قبل صدر باراک اوباما کی کوششوں اور قائدانہ بصیرت کی وجہ سے اس عالمی تحریک کا حصہ بنا تھا جو صنعتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے ، انرجی کے متبادل ذرائع مثلاً سولر انرجی ، ہائیڈل پاور ، ہوا سے ونڈ مل Wind Mill کے ذریعے انرجی حاصل کرنے جیسے اقدامات کے لئے چلائی جا رہی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد صنعتی اخراج کو کنٹرول کرنا اور پیٹرول کے استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی کو روکنا ہے۔ تاہم صعنعتی دوڑ میں دیر سے شامل ہونے والے بھارت اور چین ان اقدامات پر پوری طرح عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک نے تیل اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے ماحولیات کی خرابی میں زیادہ کردار ادا کیا ہے لیکن یہ ممالک کسی نہ کسی صورت اب بہتری کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ چین اور بھارت اور دیگر ترقی پذیر ملکوں میں کم وسائل کے ساتھ صنعتی پیداوار حاصل کرنے کی کوشش میں صنعتی مشینری کے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے کام کرنے کی رفتار سست ہے۔ دیگر کئی ممالک بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ زیادہ آبادی ، کم وسائل اور لاعلمی ماحولیات کے لئے اہم خطرہ بن رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے انہی خطرات سے نمٹنے کے لئے وسائل فراہم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔
پاکستان میں ماحولیات کے حوالے سے ابھی بنیادی کام کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے نیویارک میں جو باتیں کی ہیں، وہ محض کتابی نوعیت کی ہیں لیکن عملی طور سے حکومت ، ماہرین اور عوام ماحولیات سے متعلق امور کو سنجیدگی سے لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے عوامی آگاہی کا کوئی باقاعدہ پروگرام شروع نہیں کیا گیا۔ انتظامی سطح پر بھی 2015 کے شروع میں ماحولیات کی وزارت ضرور قائم کی گئی لیکن جب اس کے وزیر مشاہد اللہ خان فوج کے بارے میں متنازعہ بیان دینے کے بعد مستعفی ہو گئے تو یہ وزارت بھی بے وزیر ہو گئی۔ ابھی تک ایسا کوئی قومی منصوبہ سامنے نہں آیا جو ماحولیات کی بہتری کے لئے عوام کی سطح سے صنعتی اداروں تک سوچ اور عمل کی تدیلی کے لئے کام کا آغاز کرے۔
اس حوالے سے سب سے پہلے تو آبادی پر کنٹرول بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کثرت اولاد کو نعمت سمجھا جاتا ہے اور سرکاری سطح پر کوئی باقاعدہ مہم دیکھنے میں نہیں آتی جو لوگوں کو بچوں کی تعداد کم کرنے پر آمادہ کر سکے۔ اس کے علاوہ ملک کے اسکولوں کا نصاب اس بارے میں بالکل کورا ہے اور دنیا کے وجود کو لاحق اس عظیم خطرہ سے طالب علموں کو آگاہ کرنے میں ناکام ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے میں بھی ماحولیات کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ کوئی ایک آدھ لیڈر ضمناً اس بارے میں بات کر لیتا ہے لیکن ملک میں آلودگی ، گندگی اور ماحولیات دشمن انرجی کی روک تھام کے لئے کوئی حکمت عملی دیکھنے میں نہیں آتی۔
اس حوالے سے سب سے پہلا کام آگہی اور شعور پیدا کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد گلی محلوں میں صفائی ، گھریلو کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے اور سیوریج نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اکثر شہروں کا سیوریج نہروں ، دریاﺅں اور ان کے ذریعے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علاقوں میں پینے کا پانی صحت کے لئے نہایت مضر ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ملک میں متبادل انرجی کے منصوبوں پر دل جمعی اور گرمجوشی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تسلیم کئے بغیر کہ ماحولیاتی آلودگی عالمی نہیں بلکہ اس دنیا پر آباد ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے، اس حوالے سے مزاج اور کوششوں کا آغاز نہیں ہو سکتا۔ پاکستان ابھی اس عمل میں ابتدائی مرحلے میں بھی داخل نہیں ہو سکا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments