حیض اور عورت کی حیا


میرا ایک بلاگ خواتین، حیض اور ماہِ رمضان میرے دفتر اور ہم سب پر اب تک بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ میرے دفتر میں کسی کو لگا کہ بابا جی سے میری مراد فلاں شخص ہے تو کسی کو نمبر بنانے والے پر کسی اور کا شک گزرا۔ میں وضاحت کرنا چاہتی ہوں کہ اس بلاگ میں جن “فکشنل کریکٹرز” کا ذکر میں نے کیا، ان کی حقیقی زندگی کے انسانوں سے مماثلت محض ایک اتفاق ہے۔

دوسری طرف ہم سب پر جب یہ بلاگ چھپا تو دیگر لکھاریوں نے بھی اس موضوع کو اہم سمجھتے ہوئے اس پر لکھا جس کے لیے میں ان کی ممنون ہوں۔ ان لکھاریوں میں حفی مصطفیٰ، طیبہ مصطفیٰ اور مالک اشتر شامل ہیں۔ ہم اب اتنے بہادر ہو گئے ہیں کہ ان تمام موضوعات پر بول سکیں جن پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ سب کے خیالات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن کم از کم خاموشی تو نہیں ہے نا۔

اس بلاگ کے بعد میری شان میں کافی گستاخیاں بھی کی گئیں جن کا میں نے ہرگز برا نہیں مانا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ ہر کوئی اپنے ظرف اور سوچ کے مطابق بولتا ہے اور ہم اسی سوچ کی تبدیلی کی خاطر لکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا بولنا ہماری کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ جب صدیوں پرانی سوچ پر نئی سوچ کی ضرب پڑتی ہے تو آواز تو آتی ہی ہے۔ شروع میں مشکل ہوتی ہے مگر ہر اگلی ضرب کے بعد معاملہ آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔

حیض کی بات کریں تو یہ قدرت کی طرف سے لڑکی کی ذات کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے۔ ہر بالغ لڑکی مہینے میں ایک بار حیض کے عمل سے گزرتی ہے۔ حیض کا ہونا لڑکی کے لیے کسی طور بھی شرمناک نہیں ہے بلکہ یہ قدرتی عمل ہے جسے اب ہمیں قبول کر لینا چاہئیے بالکل اسی طرح جس طرح ہم مختلف قدرتی عوامل کو قبول کر چکے ہیں۔

کئی تہذیبوں میں حیض کی حالت میں عورت کو اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ ہماری اپنی تہذیب میں موجودہ دور میں حیض سے متعلق کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ حیض کی حالت میں نہ نہائو۔ اچار کے مرتبان کو ہاتھ نہ لگائو، خراب ہو جائے گا۔ پودوں کو پانی نہ دو۔ ناخن نہ کاٹو وغیرہ وغیرہ۔

جاپان میں سمجھا جاتا تھا کہ حیض کے دوران اگر کوئی خاتون سوشی بنائے گی تو وہ اسے خراب کر دے گی۔ فرانس میں یہی روایت میئونیز کے متعلق تھی۔ اٹلی میں بھی حیض کی حالت میں خواتین کو مختلف کام کرنے سے روکا جاتا تھا مثلاً پودوں کو ہاتھ نہ لگائو، وہ مرجھا جائیں گے۔ آٹا نہ گوندھو ورنہ وہ صحیح سے نہیں پھولے گا۔ فلپائن میں کہا جاتا تھا کہ جب کسی لڑکی کو پہلی بار پیریڈز ہوں تو اسے اس خون سے اپنا چہرہ دھونا چاہئیے، اس سے اس کی جلد میں نکھار پیدا ہوگا۔ بھارت میں تو خواتین کو حیض کی حالت میں اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ وہاں اب تک کئی علاقوں میں حیض کی حالت میں عورت کا بستر الگ کر دیا جاتا ہے۔ ملایشیا میں مانا جاتا تھا کہ خواتین کو اپنے استعمال شدہ پیڈز پھینکنے سے پہلے انہیں دھونا چاہئیے ورنہ جن بھوت انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اب ہم اکیسویں صدی میں کھڑے ہیں لیکن ان وہموں کی پرچھائی اب بھی ہم پر باقی ہے۔

عموماً جب بچیوں کو حیض شروع ہوتے ہیں تو مائیں عجیب پریشانی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ذرا ایک پل کو اس ماں کا سوچیں جسے اس کی بیٹی بتاتی ہے کہ اس کی شلوار پر خون کا دھبہ لگا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو کیسے حیض کے متعلق سمجھائے، یہ اس کے لیے امتحان بن جاتا ہے۔ اب تو مائیں کافی سمجھدار اور پڑھی لکھی ہیں۔ پھر بھی کچھ ایسی ہیں جو ماں بیٹی کے رشتے کی شرم میں اپنی ہی بیٹی کو شرمندہ کر دیتی ہیں۔ یہاں سے بیٹیوں کو لگتا ہے کہ حیض کا ہونا شرمناک ہے۔ وہ پوری زندگی اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتی ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہی سبق دیتی ہیں جس کا نتیجہ ہم آج یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس موضوع پر جو بات کرے اسے بے شرم عورت سمجھ لیا جاتا ہے۔

میرے بلاگ کو ہی دیکھ لیجئیے۔ اسے پڑھنے کے بعد کچھ لوگوں کو لگا کہ میں خواتین کو ننگا ہونے کی ترغیب دے رہی ہوں، حالانکہ میں بس اتنا چاہتی تھی کہ ماہِ رمضان میں حیض والی خواتین اپنی ورک پلیس پر جن مسائل سے گزرتی ہیں، ان پر روشنی ڈال سکوں۔

میں ایک لڑکی ہوں اور مجھے اپنے لڑکی ہونے پر فخر ہے۔ قدرت نے میرے جسم کے ساتھ کچھ معاملات رکھے ہیں جو مجھے خاص بناتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں نے یہ سمجھا ہے کہ مجھے اپنے جسم، اپنی شخصیت، اپنے خیالات اور اپنی پہچان پر شرمندہ ہونے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایسی ہی بنائی گئی ہوں اور یہ سب چیزیں مل کر مجھے خاص بناتی ہیں۔ مجھے ان میں سے کسی کی بھی بنیاد پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہماری خواتین کو بلاوجہ قربانیاں دینے کی عادت ہو گئی ہے۔ وہ اپنے جائز حقوق بھی بلاوجہ قربان کر دیتی ہیں۔ ٹھیک ہے آپ اپنے حقوق کی قربانی دینا چاہتی ہیں تو شوق سے دیجئیے، مجھے تو اپنے مکمل حقوق چاہئیے۔

یہ میرا بنیادی حق ہے کہ میرے سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پیڈز مہیا ہوں تاکہ اگر کبھی مجھے سکول، کالج یا یونیورسٹی کے اوقات میں پیریڈز شروع ہوں تو میں اپنے کپڑے مزید خراب ہونے سے بچا سکوں۔

یہ بھی میرا حق ہے کہ میرے کام کرنے کی جگہ پر بھی یہ اشیاء موجود ہوں۔ ہر ادارے میں کوئی کینٹین ہوتی ہے، وہاں پیڈز اور زیر جامہ رکھے جا سکتے ہیں۔ عمومی طور پر ادارے میں کام کرنے والی خواتین پیسے ملا کر یہ سارا سامان خرید لیتی ہیں اور کسی ایک خاتون کے پاس رکھوا دیتی ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں کوئی بھی خاتون یہاں سے پیڈز یا زیر جامہ لے سکتی ہے۔

یہ بھی میرا حق ہے کہ رمضان کے دوران جب میں حیض پر ہوں تو بغیر کسی ججمنٹ کے کھا پی سکوں۔ جب مجھے شریعت نے چھوٹ دی ہے تو میں اس چھوٹ کا استعمال کیوں نہیں کر سکتی؟ میرے بلاگ پر کسی نے کمنٹ کیا کہ باتھ روم میں جا کر کھا لیا کریں۔ یہ انسانیت کا کیسا احترام ہے بھائی؟

احترامِ رمضان آرڈیننس بھی صرف ان پر پابندی کی بات کرتا ہے جن پر شرعی لحاظ سے روزہ لازم ہو۔ گو اس آرڈیننس میں بھی کافی جھول ہیں اور اسے فی الفور ختم کیا جانا چاہئیے لیکن اگر آپ وہ آرڈیننس پڑھیں تو اُپ کو معلوم ہوگا کہ اس میں وہ تمام لوگ اس پابندی سے آزاد ہیں جن پر کسی بھی صورت میں روزہ فرض نہیں۔

اگر میں رمضان کے مہینے میں حیض پر ہوں تو میرا یہ حق ہے کہ نیوز روم کے کونے میں پڑے ڈسپنسر پر موجود خالی بوتل کو نئی بوتل سے تبدیل کروائوں اور اس نئی بوتل میں سے پانی اپنے گلاس میں بھروں۔ کیونکہ مجھ پر روزہ فرض نہیں اور دین میں کوئی جبر نہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے حیا کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے تو موقع کا فائدہ اٹھائیں اور اس حیا کے دامن کو پکڑ لیں۔ اس حیا کی مجھ سے زیادہ ضرورت آپ کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).