جھنڈے کے سفید رنگ کو سیاہ کر دیجیے


 

گگن سنگھ کو ہیرو بنے تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ہم نے بدلا دینا اپنا فرض سمجھا۔ ایک طرف فخر انسانیت کا گیت ہے کہ ہمارے بھائی کو وہاں بچایا گیا جہاں ہم اقلیت میں ہیں ۔اور ادھر ہم مذہبی ہم آہنگی کے لیے بڑھ کے کام کرنے والے کو سینے پہ گولی کا تمغہ سجانے پہنچ گئے ۔ایک چھوٹی سی خبر ہے کہ پشاور میں سردار چرن جیت سنگھ کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ افراد نا معلوم ہیں تو وجوہات کیونکر معلوم ہو سکتی ہیں؟ دراصل یہ انعام ہے کہ سردار صاحب نادار مسلمانوں کے لیے افطار کا اہتمام کرتے تھے اور مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے کوشاں تھے۔دوسری بات ایک غیر مسلم کو اتنی جرات پہ تمغہ دینا تو بنتا تھا کہ وہ اس گھٹن زدہ ماحول میں اپنے ہونے اور جینے کے لیے کوشش کر رہا تھا اور سب سے بڑھ کے غلطی یہ کہ خود کو برابری کی سطح پہ پاک لوگوں کی سر زمین پہ باشندہ سمجھ رہا تھا۔

سوچتی ہوں کہ یہ سبق کس نے لکھا اور ہمیں کہاں بچپن میں پڑھا دیا کہ جھنڈے علامت ہوتے ہیں۔ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا ضرورت تھی اسے سفید رکھنے کی جس دکھ کے سائے میں کمتری کے احساس کے ساتھ یہاں اقلیتیں رہتی ہیں،  اس کے مطابق اس کا رنگ سیاہ ہونا چاہیے تھا۔ علامت تھی تو مناسب تو ہوتی کہ واضح پیغام جاتا کہ پاک لوگوں کی سر زمین پہ ناپاک لوگوں نے رہنا ہے تو غم کے سائے میں رہ سکتے ہیں،  سوگ منا کے سانس لے سکتے ہیں۔ اور جہاں جس کا دل چاہے،  ان کا سانس روک سکتا ہے۔ ہم ہندو سماج میں درجہ بندیوں کا شور مچاتے ہیں،  ذرا خود بھی دیکھیں آپ یہاں موجود عسائیوں، ہندووں، سکھوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنےوالوں سے کیا سلوک کرتے ہیں۔ اسے چھوڑیں آپ تو مسلکی اختلاف کی بنا پہ بھی کسی کو قتل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

نفرت کا بیج بہت پرانا ہے اس کی فصل کٹ رہی ہے لیکن کیا نئے بیج نہیں بوئے جا رہے۔ یہاں کوئی حقوق کی بات کرے، سوال اٹھائے، ریاست سے جان و مال کی حفاظت کا سوال کرے، اپنے کھوئے ہووں کو تلاشنے کی جستجو کرے یا اپنے لاشوں کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرے تو وہ گستاخ، غدار اور باغی ہے۔ لیکن کوئی منبر پہ بیٹھ کے یہ سکھائے کہ ہر اس شخص کا قتل جائز ہے جو آپ کی طرح نہیں سوچتا تو کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ نفرت کی ترویج پہ نہیں کہا جاتا کہ ہیٹ سپیچ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ کوئی کہے بھی تو کیسے اسی کی بنا پہ حکمرانی ملتی ہے۔ جب عقل کے اندھوں کو بتایا جاتا ہے کہ حکومت ملی تو وہ تلواریں لے کے ہر اس سر کو قلم کر سکتے ہیں جو سوچ سکتا ہے جو ان کے طرز زندگی اور سوچ سے اختلاف کرے اسے جہنم رسید کرکے جنت کا ٹکٹ خرید سکتے ہیں۔

بات اتنی نہیں، تھوڑی گہری ہے۔ کبھی غور کیا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ کیوں محض ایک آدھ باب کو نکالنے کے لیے محض سال کے بعد ہی کتاب میں تبدیلی کا ڈرامہ کرنا پڑا؟ کیوں نہ کرنا پڑتا اس میں آپ اپنے ملک کی ایک نام نہاد اقلیت کے تہوار کو نہ صرف پروموٹ کر رہے تھے بلکہ اسی کے ذیل میں دیگر اقلیتوں کے تہواروں کا نہ صرف ذکر کر ہے تھے بلکہ ہلکی پھلکی تفصیل بھی دے رہےتھے۔ اتنی بڑی خطا۔ ذہنوں کا دروازہ کھولنے کی کوشش یہ ناقابل معافی ہے۔ ہم اگر سماج کو اپنے بچوں کو یہ سکھا دیں گے کہ سب انسان برابر ہیں تو کیا رہ جائے کا بکنے کو؟ کس بنا پہ ووٹ خریدے جائیں گے؟ اور پھر کیسے لوگ اس جھگڑے سے نکل یہ سوچنے کے قابل ہوں سکیں گے کہ زندگی پہ ان کا حق ہے اور اسے جینے کے لیے انہیں بھی انسانی سہولیات چاہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ہوا کسی سر پھرے کی باتوں میں آ کے کوئی مشعال خان مارا جائے، سلمان تاثیر قتل ہو یا پھر چرن جیت سنگھ کے خون سے امن کے مہنے میں خون کی ہولی کھیلی جائے۔ ایسا برسوں سے چلتا آیا ہے۔ ”میں اور میرا نظریہ ٹھیک ہے باقی سب غلط ” کی بنیاد پہ یہاں سب بن اور بگڑ رہا ہے ۔اسے سدھارا گیا تو کیسے چلے گا۔ یہ اندھے آئینوں کا دیس ہے، یہاں غلط صرف وہی ہے، جو دیکھنے اور سوچنے کا دعوی کرتا ہے اور اس کی جگہ اس سر زمین پہ ہے تو سہی لیکن اس کے اوپر نہیں، اس کے نیچے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).