بھارت کی آبی دہشت گردی شروع


بھارت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا اور ہمارے اربابِ اختیار ستو پی کر سو رہے ہیں، پانی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور آج تک اس سے نپٹنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ عبوری حکومت آیا ہی چاہتی ہے چونکہ وہ صرف الیکشن کروانے تک ہی محدود رہے گی تو اس حکومت سے امید رکھنا کہ کسی بڑے ڈیم کی تعمیر کا اعلان کرے یا پانی کے بحران پر بھارت سے احتیجاج کرے کیونکہ بھارت نے آبی دہشت کامظاہرہ کرتے ہوئے دریائے چناب کا پانی روک دیا، ہیڈ پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں پانی کا اخراج صفر ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کو پانی کی کٹوتی کا خدشہ ہے۔

ذرائع کے مطابق بھارت نے بگلیہار ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے دریائے چناب میں تیس ہزار کیوسک پانی کم ہوگیا ہے۔ دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کی آمد صرف بیس ہزار کیوسک رہ گئی ہے۔ مئی 2017 ء میں اسی عرصے کے دوراں دریائے چناب میں پانی کی آمد پچاس ہزار کیوسک سے زیادہ تھی۔ پانی کی شدید قلت کے باعرث ہیڈ پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں پانی کا اخراج صفر ہوگیا ہے۔ اگر یہ صورت حال رہی تو پنجاب اور سندھ کو پانی کی کٹوتی کا خدشہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان ہر سال ستر ارب ڈالرز کا پانی سمندر کی نذر کردیتا ہے اگر پاکستان نے آبی ذخائر تعمیر نہیں کیے تو دوہزار پچیس تک پاکستان کو 33 ملین ایکڑ فٹ پانی کی قلت کا سامنا ہوگا۔ آبی وسائل کے ماہرین کا کہنا ہے پانی کی مستقل ضروریات کے پیش نظر آبی ذخائر پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ستر ارب ڈالرز مالیت کے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔

بھارت مسلسل نئے نئے ڈیم بناکر پاکستان کا پانی روکنے میں مصروف ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے گذشتہ دنوں ہی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیرمیں کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کیا ہے۔ پاکستان نے اس معاملے کو اقوامِ متحدہ میں اٹھایا تو عالمی بنک نے جو سندھ طاس معاہدے میں ضامن ہے نے بھی بھارت کی طرفداری کرتے ہوئے پاکستان کے اعتراضات کو ناکافی قرار دے کر مسترد کردیا۔ بھارتی حکومت اس آبی دہشتگردی میں ملوث ہے لیکن پاکستانی حکومت کے اقدامات صفر ہیں۔

الیکشن میں چند مہینے ہیں نئی حکومت کو اپنی پہلی ترجیح صرف اورصرف پانی پر ہی مرکوز کرنی ہوگی ورنہ آنے والے سال پاکستان میں پانی کا بحران لے کر آئیں گے۔ عالمی بنک سے بھی احتیجاج کرنا ہوگا کہ وہ بھارت کو ان اقدامات سے روکے۔ سب سے اہم کام کسی بڑے ڈیم کی تعمیر ہے جو نئی منتخب حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے، ورنہ پانی کی کی قلت پاکستان کے لیے خطرناک اور تکلیف دہ ہوگی۔ آبی ذخائر کی تعمیر پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ستر ارب ڈالرز کے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے ۔ سندھ میں سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے ڈی سیلینیشن پلانٹ لگانے کا اعلان ہوا تو ہے لیکن وہ بھی نئی صوبائی حکومت منتخب ہونے سے مشروط ہے، دیکھئے اور انتظار کیجئے!

پانی وہ نعمت ہے جسے ہم بے دریغ ضائع کر رہے ہیں اس کے لیے شہریوں میں شعور پیدا کیا جائے بہت سا وقت گزر گیا ہم نے سوچا ہی نہیں ہمارے دریاؤں کا میٹھا پانی سمندر میں جاگرتا ہے یہ نہ ہو ہم میٹھے پانی کو ترس جائیں۔ پانی کے معاملے پہ سیاسی جماعتوں کو بھی غور کرنا چاہیے اور اپنے منشور کا حصہ بنانا چاہیے ، عوام الناس کو پانی کے استعمال اور اہمیت سے آگاہ کرنا ہوگا کیونکہ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے اور ہمیں یہی قطرہ قطرہ جمع کرکے آنے والی نسلوں کو پانی کے بحران سے بچانا ہے سو آج سے پانی کو ضائع ہونے سے بچانا ہے اپنی نسلوں کو بچانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).