زرافہ اور لمبی لڑکی


اجمل اعجاز کے افسانوی مجموعے ”زرافہ اور لمبی لڑکی“ کا فلیپ میرے پسندیدہ نثر نویس حسن منظر نے لکھا ہے۔ ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو۔
”اجمل اعجاز کے افسانے کسی خیالی دُنیا کے افسانے نہیں ہیں۔ ان کے شہر اور آس پاس کی دُنیا کے لوگ انھیں کردار بھی فراہم کرتے ہیں، اور ان کرداروں کی زندگی کے واقعات بھی۔ نتیجہ حقیقت پر مبنی اجمل اعجاز کا افسانہ ہوتا ہے۔“

اس کتاب میں بیس افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ پہلا افسانہ ”سنگم“ پڑھ کے کوئی خاص دل چسپی نہیں‌ پیدا ہوتی، کہ کتاب کو مزید دیکھا جائے۔ دوسرا افسانہ ”لٹیرا“ کا موضوع بھی نیا نہیں ہے، نہ انداز جداگانہ۔ اختتام سے پہے ہی پتا چل جاتا ہے، کہ انجام کیا ہے۔ تیسرے نمبر پہ آتا ہے، ”بھیک“۔ یہ افسانہ بہت اچھا لگا، اور بہت خوب صورتی سے انسانی نفسیات کی پرت کو سامنے لایا گیا ہے۔ میرا خیال ہے، ہر قاری کو لگے گا، وہ اس کردار سے ملا ہے؛ یہ کہانی اس پہ ایک بار ضرور بیتی ہے۔

”خوف“ ایک غیر حقیقی واقعے کا پلاٹ بنایا گیا ہے۔ اچھی کہانی کے شائق کو کوئی خاص متاثر نہیں کرتا۔ اس کے بعد ”بے گھری“ کا پلاٹ بھی غیر حقیقی سا ہے، لیکن یہ افسانہ متاثر کن ہے۔ مجموعے کے ابتدائی افسانوں میں، مجھے ”بھیک“ اور ”بے گھری نے متاثر کیا۔

”انعام“ یہ افسانہ پچھلے افسانے ”بے گھری“ میں سے پھوٹا لگتا ہے، لیکن ”بے گھری“ کی طرح متاثر نہیں کرتا۔ ”مراجعت“ علامتی افسانہ ہے، اچھا ہے لیکن کوئی چونکا دینے والی بات نہیں ہے، شاید اس لیے بھی کہ میں نے اس طرح کہانیاں پڑھ رکھی ہیں، اور مجھے اس میں تازگی محسوس نہیں ہوئی۔ ”صلہ رحمی“ اس افسانے میں بظاہر معمول بات کو لے کر چلا گیا ہے، لیکن خاصے کی چیز ہے۔

ذہن کے نہاں خانوں میں چھتا بنائے ہوئے مدھو مکھیاں؛ اور وسوسوں کے ڈنک، ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے کردار کی اشکال واضح کرنا، کہانی کرنا۔ مجھے لگا اس میں اجمل اعجاز کو مہارت حاصل ہے۔ ”بچے“ اس میں بھی اجمل اعجاز دکھائی دیتے ہیں۔ ”بچے“، ”صلہ رحمی“، ”بھیک“،”دوسرا دروازہ“، یہ اجمل اعجاز ہیں؛ یہی ان کا رنگ ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے با معنی کہانیاں تلاش کرنے والا، اجمل اعجاز۔

”دانش ولد عسرت“ یہ افسانہ کم زور ہے، شاید صفحات کی تعداد پوری کرنے کے لیے یہ صحافتی رپورٹنگ کی سی کہانی شامل کرلی گئی ہے۔ ”اجالے یادوں کے“ رومانی فضا میں رچی داستان۔ ایسی کہانیوں میں کرافٹ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، زبان و بیان کی رنگینی پیدا کی جاتی ہے، لیکن اجمل اعجاز نے اسے سادہ انداز ہی میں کہنا پسند کیا۔ عموما افسانوں میں ”کوٹ ایبل کوٹس“ مل جاتے ہیں، جنھیں نمونہ فن کے طور پہ پیش کیا جائے، ”زرافہ اور لمبی عورت“ میں ایسے جملے تلاش کرنا مشکل ہے، جنھیں دیگ کے چاول کے طور پہ پیش کیا جاسکے، کہ یہ دیگ کا ذائقہ ہے۔

”کھودا پہاڑ“ افسانے کے عنوان کی طرح، متن میں سے بھی کچھ خاص برآمد نہیں ہوتا۔ ابتدا ہی میں پتا چل جاتا ہے، کہ انتہا کیا ہے؛ اپنے خیال کے حساب سے طویل ہے۔ اس کے بعد ”بوڑھا بچہ“ اسٹریٹ کرائم کی سینہ بہ سینہ چلتی، دل چسپ و عجیب کہانیوں میں سے سنی ایک کہانی لگتی ہے۔

”ایک ہی بات“ طنزیہ کہانی ہے، کہ دہشت گردی میں مرنے والے انسان اور جانور ایک سی وقعت رکھتے ہیں۔ ”پھول کہانی“ ازدواجی زندگی کے مدھر جذبوں کی کہانی ہے۔ اسے کہنے کے لیے بھی زیادہ لفظ لیے گئے ہیں۔ کاش یہ کہانی تھوڑی مختصر ہوتی۔ ”تضحیک“، پر وہی اعتراض ہے، جو ”بوڑھا بچہ“ پر ہے، کہ اس طرح کے گھڑے ہوئے افسانے ہم کئی لوگوں کی زبان سے سنتے ہیں، ہر راوی اسے ہڈ بیتی کہ کر سناتا ہے۔ ”ایک لڑکی“ زرا بھر متاثر نہیں کرتی۔

”بے نام“ اجمل اعجاز کا وہی مخصوص رنگ، کہ وسوسوں کی پٹاری سے گلاب نکال لینا۔ کئی بار کے بیتے ہوئے فسانے کو اپنے زاویے سے دکھایا ہے؛ پڑھ کے اچھا لگا۔ آخر میں ”زرافہ اور لمبی لڑکی“ کو رکھا گیا ہے، جو اس افسانوی مجموعے کا عنوان بھی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ افسانے کی آخری سطریں ہی چونکائیں، بیان کا سحر بھی ہوتا ہے، کئی افسانوں میں جملے کی چستی کم یاب ہے۔ آخری سطروں میں چونکانے کی بات تو کسی افسانے میں نہیں دکھائی دی، کہ تقریبا ہر کہانی پڑھنے والے پر پہلے سے کھل جاتی ہے۔ مجھے اجمل اعجاز کی سادہ بیانی مجموعے میں شامل کئی کہانیوں کے لیے موزوں نہیں لگی، یا یوں کہ لیں، اس انداز کے مصنف کو ان میں سے کچھ کہانیاں نہیں لکھنا چاہیے تھیں۔ لکھنا تھیں، تو ان کو سنوارنے میں زیادہ وقت لینا چاہیے تھا۔

”زرافہ اور لمبی لڑکی“ یہ کتاب ”فائزہ پبلیکیشنز“ گلشن اقبال، کراچی نے شایع کی ہے۔ قیمت تین سو رُپے ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran