چرن جیت بابو امن پسند ہیں؟ گولی مار دو!


”تمہاری باتیں بہت اچھی ہیں لیکن مانے گا کون“ یہ وہ پہلا سوال تھا جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے نکلنے کے بعد میرے سامنے رکھا گیا اور ایسا خبیث سوال ہے کہ جواب ہی نہیں ملتا۔ ایک استاد محترم کہا کرتے تھے کہ بیٹا ہمارے کوئی مسائل نہیں ہیں بلکہ لوگ صرف عدم اعتماد کا شکار ہیں جب خود پر اور خدا پر مکمل بھروسہ کر لیا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس بیان پر ہی بھروسہ پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ اکثر ترقی پسند جن کو خود پر بھروسہ ہے وہ خدا پر سرے سے بھروسہ نہیں رکھتے اور جو لوگ مکمل بھروسہ کے ساتھ پر اعتماد ہو کر سامنے آتے ہیں ان کو گولی مار دی جاتی ہے۔ لہذا اگر آپ کچھ اچھا کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھروسہ رکھیں آپ کو گولی ماری جا سکتی ہے۔

چرن جیت سنگھ ”بابو“ کو اچانک موت کے گھاٹ اتار دینے سے دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کی دل آزاری ہوئی ہے جس کی شدت اُس تسکین سے تو قدرے زیادہ ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس وقت محسوس ہوئی جب پشاور کے سِکھوں نے رمضان کے احترام میں سڑک کنارے افطار کے اہتمام کیے۔ ایسی حرکت سکھوں نے پہلی بار نہیں کی گزشتہ چند سالوں سے پشاور، ننکانہ صاحب اور سیالکوٹ کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق محبت پھیلانے کی بھیانک کوششیں کرتے آ رہے ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی کا فروغ، عید میلادالنبی، جلسے جلوس اور دیگر تقریبات میں بھرپور شرکت، پاکستان کے حق میں آواز اٹھانا اور بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کی نمائندگی کرنے جیسے خطرناک کام بھی سِکھ ہی کر رہے ہیں اب ”چرن جیت بابو“ کو شاید معلوم نہیں تھا کہ ایسے دیگر مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کو ایک چھت تلے لا کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر امن کا نعرہ لگانا ان کی جان کا دشمن ثابت ہو گا۔

بابو سے جب بھی ملاقات ہوتی نہایت نفاست اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے تھے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پشاور کی پوری سِکھ برادری میں ایک سمجھدار اور اہم شخصیت سمجھے جانے والے چرن جیت عرف بابو کبھی کسی غیر اخلاقی سرگرمی میں نہ تو کبھی دیکھے گئے اور نہ ہی کبھی شر پسندی کو فروغ دینے والی سرگرمیوں کو سراہا لیکن افسوس کے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو در حقیقت شرپسندوں اور امن دشمنوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ دو سال قبل اپریل میں خیبر پختون خواہ کے ہی علاقے پیر بابا میں مشیر وزیر اعلی اور ممبر قومی اسمبلی سردار سورن سنگھ کو بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ان کی وفات کے بعد سوگ کی ہوا چلی اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ مرحوم نے جگہ جگہ سڑک کنارے مقدس کاغذات کے لئے ڈبے تک لگوا رکھے تھے تا کہ کسی کے مذہب کا تقدس پامال نہ ہو اور بے حرمتی سے بھی بچا جا سکے۔

سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے سورن سنگھ کی تصویر ہر چند روزبعد سوشل میڈیا پر دِکھ جاتی ہے اور ساتھ ہی ان کی مختصر مدت میں عوامی فلاح کے لیے کیے گئے کاموں کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ چرن جیت سنگھ بابو کو بھی عوامی فلاحی کاموں کا شوق تھا اور اکثر تقریبات کی رونق بنتے رہتے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کی کمیٹی، پشاور امن کمیٹی و دیگر کے اہم رکن ہونے اور سب سے پیار محبت سے ملنے کی وجہ سے کئی انکھوں میں چُبھتے رہے ہوں گے۔ گذشتہ سال معروف عالم مولانا طارق جمیل کے ہمراہ ان کی ایک تصویر کسی نے شرارت کے طور پر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی جس کے عنوان میں لکھ رکھا تھا کہ“ بھارتی سکھ نے اسلام قبول کر لیا“۔ لیکن اس پاکستانی سکھ نے حیران کن طور پر کسی شدید ردعمل کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ ہم آہنگی کے فروغ میں مزید پیش پیش رہنے لگے اورسرِ عام بیان دیا کہ پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی اور تحفظ حاصل ہے۔

دشمن طبیعت قاتلوں کو ایسے بیان کبھی ہضم نہیں ہوئے، کئی امن پسند، مذہبی اور سماجی شخصیات کو محض اس بنا پر نشانہ بنایا جا چُکا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے تحفظات سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو اہم سماجی، مذہبی اور امن پسند نمایاں شخصیات کو اسی طرح کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اقلیتی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوششیں کی گئی ہیں اور اسی کی بدولت تقریبا ہر میدان میں سکھ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اقلیتوں کے تحفظ کے معاملات کو اب زیرِ غور لانے کی اشد ضرورت ہے۔

زندگی بھر محنت کرنے والے انسان کو جب نامعلوم افراد گولی کا نشانہ بنا دیں تو نتائج کو مثبت شکل اختیار کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس امر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے کیونکہ چرن جیت بابو وادی تیراہ سے ہجرت کر کے پشاور اچھے مستقبل کی غرض سے رہائش پذیر ہونے والے واحد شخص نہیں تھے۔ اور خیبر میں سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ کا یہ پہلا واقعہ بھی نہیں ہے۔ شاید اسی لیے سکھوں کا خیبر پختون خواہ سے پنجاب میں آکر بسنے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے جس سے ننکانہ صاحب اور حسن ابدال میں سکھوں کی آبادی میں تقریباً 200 فی صد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

علاوہ ازیں صوبہ سندھ کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا کے علاقوں میں بھی اغوا، جبری مذہبی تبدیلی اور زبردستی شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے اعداد و شمار بھی خطرناک گراف بناتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے۔ پاکستان کی اقلیتوں میں رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد میں 40 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے اب اس نوجوان نسل نے ہی باگ دوڑ کو سنبھالنا ہے، فخر کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے سکھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آئے دن انٹرنیشنل میڈیا میں یکے بعد دیگرے ایک اچھی خبر کے ساتھ نمودار ہو کر ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں لیکن افسوس محسوس یوں ہوتا ہے جیسے شدت پشندوں نے طے کر رکھا ہو کہ اقلیت اور امن پسند کو گولی مار دو۔ امن کی فضا کو قائم رکھنا ہوگا مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششوں میں بھی شدت لانا ہوگی ورنہ شدت پسند امن پسندیدگی کی شرط بھی ختم کردیں گے اور کہا جائے گا بس گولی مار دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).