تاریخ یا ضد میں بولا گیا سچ؟


” 11 ستمبر 1948 کا دن زیارت سے کراچی واپسی پر قائداعظم کو ائیرپورٹ پر استقبال کیلئے آنے والا ملٹری سیکرٹری اپنے ساتھ ایک کھٹارا ایمبولینس لے کر آیا اور ساتھ کوئی ڈاکٹر یا نرس بھی نہ تھی۔ راستے میں ایمبولینس کا پٹرول ختم ہوگیا،قائداعظم دو گھنٹے تک ایمبولینس میں بے یارومددگار پڑے رہے فاطمہ جناح فائل سے پنکھا جھلتی رہیں۔ متبادل ایمبولینس آنے پر بانی پاکستان کو گھر منتقل کیا گیا جہاں ملک کو آزادی دلانے والا اسی رات زندگی سے آزاد ہوگیا، اس واقعہ کے ذمہ داروں کو آج تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا گیا”

” 16 اکتوبر 1951 راولپنڈی کے کمپنی باغ (لیاقت باغ) میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو سید اکبر نامی شخص نے دو گولیاں مار دیں، ہسپتال لے جاتے ہوئے وہ راستے میں شہید ہوگئے۔ پولیس سب انسپکٹر نے فوراً فیصلہ کیا اور سید اکبر کو گولی مارکر ہلاک کردیا۔ یہ پولیس افسر ڈی آئی جی ریٹائر ہوا ۔ وہ یہ راز اپنے سینے میں لے گیا کہ اسے قاتل کو کس نے مارنے کا حکم دیا تھا۔ قتل کے محرکات آج تک منظر عام نہیں آئے، کبھی افغان بادشاہ ظاہر شاہ کبھی امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ 56 سال بعد اسی باغ میں 27 دسمبر 2007 کو دو بار وزیراعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا اور ڈانڈے افغانستان سے ملادیئے گئے انہیں بھی انصاف نہیں ملا”

یہ تحریریں 28 اکتوبر کو یوم تکبیر کے حوالے سے مسلم لیگ نون کے ایک صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ کے خواہشمند امیدوار کی جانب سے اخبارات میں شائع کرائے اشتہار میں درج ہیں۔

جس میں نوازشریف اور ڈاکٹر قدیر خان کی تصاویر کے ساتھ لکھا ہے۔

“اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کا دن۔

لندن کے فلیٹس کا احتساب ہی کافی نہیں ۔

پوری 70 سالہ تاریخ کا حساب دیں۔

“نوازشریف نے 28 مئی 1999 کو عالمی دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کئے ،

آگے چل کر لکھا ہے کارگل جنگ چھیڑنے والے جنرل پرویز مشرف نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو حصہ بنایا، جس کے باعث ملک کا حال سب کے سامنے ہے”

“نوازشریف کو اقامہ اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزامات پر عہدے سے ہٹادیا گیا۔ لیکن عوام 2018 کے الیکشن میں اس کا بدلہ لینے کے لیے بے چین ہیں”

اشتہار پر بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اپنے محسنوں پر چلنے والی “شمشیر ناز” کو ہمیشہ کے لیے میان میں بند کردیں گے۔

اور یہ بھی کہ” اہل وطن جاگتے رہو، آج پھر ہمیں ایک نیازی کا سامنا ہے”

ملک کی سیاسی تاریخ کے اہم واقعات کو اس قدر وضاحت سے بیان کرنے کا مقصد اگرچہ صرف اور صرف سیاسی ہے۔

اس “سچ” کو بیان کرنے کے پیچھے کارفرما محرکات کیا ہوسکتے ہیں، یہ کسی ضد میں بولے جانے والا “سچ” ہے یا تاریخ کے حقائق ہیں جنہیں ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

یہ حقیقت ہے پھر اسے اس وقت بیان کیوں کیا جا رہا ہے؟ سب سے بڑھ کر احتساب اور انصاف کے مطالبے کو بنیاد بنا کر ماضی میں قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی گئی۔ اس کا تقاضا اب کس سے کیا جا رہا ہے؟ کیا ذمہ داروں کی بین السطور میں نشاندہی کرکے محض ووٹ اور اقتدار کا حصول ہی ہے؟

اشتہار میں کہا گیا کہ جنرل ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے میں پاکستان کے تین دریا بھارت کے حوالے کردیئے، جنرل یحیٰ خان نے مشرقی پاکستان گنوادیا۔ کارگل پر بھارت کا قبضہ کرایا۔ جنرل ضیاء نے سیاچن دیا اور ہیروئن کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا۔

اتنا زیادہ سچ کہ جیسے سیاسی تاریخ کو ازسرنو یادداشت کے طور پر ضبط تحریر میں لانے کی کوشش ہو۔ کیا یہ ضروری ہے کہ مفادات پر ضرب لگے اور ضد میں ہی سچ بولا جائے اور اگر یہی مفادات پورے ہوتے رہیں تو تاریخی حقائق کو سفید چادر اوڑھا کر دفن کردیا جاتا رہے۔

کیا راز اسی طرح سامنے آئیں گے، سچ کے لیے کسی کے مقاصد کی راہ میں پہلے رکاوٹیں کھڑی کرنا پڑیں گی۔

نئی نسل کو تاریخ کے اوراق کیا اسی طرح نامکمل حقائق یا مفادات کی تہہ میں لپٹے واقعات سے بھرے ملیں گے۔ انہیں حقیقت جاننے کے لیے کسی سیاسی بحران کا انتظار کرنا پڑے گا۔ جس کے بعد سچ باہر آئے گا۔ اور یہ کتنا سچ ہوگا یہ تعین کرنے کیلئے کوئی غیرجانبدار پیمانہ بھی ضروری ہے۔ اگر سیاسی مصلحت پسندی کے تحت کام چلتے رہیں تو پھر حقیقت جاننے کی نوبت بھی نہ آئے۔

کیا ہمیں محاذآرائی کی سیاست محض ایک دوسرے کو گندا کرنے کے لیے ہوتی ہے اور اس کی شدت ہی ہمیں سب کچھ اگلنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کیسے مان لیا جائے کہ جن واقعات سے پردہ اٹھایا جارہا ہے وہ تاریخ کا سچ ہے یا صرف ضد میں پیش کیا گیا بیانیہ ہے۔۔۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar