ڈیرہ غازی خان میں بہو نے اقدار کا جنازہ نکال دیا


برا ہو اس موبائل فون کا، اس کے اندر لگے ہوئے کیمرے نے تو اچھے بھلے عزت دار لوگوں کی پگڑیاں اچھال کر رکھ دی ہیں۔ عزت دار گھروں کے وہ راز کھل کر سامنے آ گئے جو کہ نہیں آنے چاہیے تھے۔ یہ راز تھے تو پہلے بھی کھلے ہی لیکن ان کا ذکر کم ہی ہوتا تھا۔ اور سب سے بڑہ کر یہ کہ اندھے قانون کی آنکھوں پر بھی دھول ہی رہتی تھی۔ مثلا گھر کی عورتوں کو راہ راست پر لانے کے لیے سمجھانا اور سدھانا تو بالکل ہی گھریلو معاملہ تھا اور اسے گھریلو ہی رہنا چاہیے تھا۔ موبائل فون کے کیمرے نے اسے ٹی وی کی سکرینوں پر سجا دیا ہے۔

چند دن قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، یقینا آپ کی نظر سے بھی گزری ہو گی۔ ایسی ویڈیو دیکھ کر دل کو سکون آتا ہے۔ بار بار دیکھنے کو دل کرتا ہے۔ بڑا مزا آتا ہے یہ دیکھ کر غیرت مند مرد ابھی موجود ہیں اور وہ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ عورتوں کو ان کے صحیح مقام پر رکھا جائے۔ یہ بہت ضروری ہے ورنہ کئی گھروں میں تو حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔ مردوں کی غیرت مر چکی ہے۔ نافرمان عورتیں دندناتی پھر رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایسا ماحول اور معاشرہ جس میں عورت کو راہ راست پر لانے کے لیے ڈنڈے کے استعمال یا بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنے جیسے سادہ سے عمل پر بھی پابندی ہو وہاں عذاب الہی کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ ہم یہ آزما بھی چکے ہیں۔ آج سے صرف 13 برس قبل زلزلہ اور آٹھ سال پرانا تباہ کن سیلاب عورتوں کے جین پہننے اور نافرمانی جیسے جرائم کے خلاف قدرت کی وارننگ ہی تو تھی۔ مولانا شیرانی صاحب اور جماعت اسلامی ویسے ہی تو نہیں چیختے کہ عورتوں کو سدھارنے کا کام جاری رہنا چاہیے اور یہ کہ مردوں کے اس حق پر کسی قسم کی پابندی لگانے کا مطلب قدرت کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

اس ویڈیو کا ہیرو ایک غیرت مند اور دلیر آدمی ہے۔ اس نے عورت کو بالوں سے پکڑا اور خوب گھسیٹا۔ وہ کوئی دشمن یا غیر نہیں بلکہ اس نا فرمان عورت کا حقیقی چچا اور سسر تھا۔ وہ عورت شدید تکلیف کی اداکاری کر رہی تھی اور چیخ چیخ کر دہائی دے رہی تھی تو مجھے ڈر تھا کہ یہ مرد کہیں کمزور نہ پڑ جائے اور اسے معاف نہ کر دے۔ لیکن شکر ہے کہ اس مرد کے بچے نے اس ڈرامہ باز خاتون کی ایک نہ سنی۔ وہ قابل معافی تھی ہی نہیں۔ وہ روٹھ کر میکے میں آ کر کیوں بیٹھ گئی تھی۔ یہ بالکل بھی اس کا حق نہیں تھا کہ اپنے سسرال کی مرضی کے بغیر اپنا گھر چھوڑتی اور میکے آ کر بیٹھ جاتی۔ سسرال میں کام کاج ہوتے ہیں وہ کس نے کرنے تھے۔ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ وہ ڈولی میں بیٹھ کر اس گھر میں پہنچی تھی تو اس گھر سے صرف اس کا جنازہ ہی نکل سکتا تھا۔ اور اسی بات پر اس کے میکے والے بھی راضی تھے۔ اسی لیے تو جب اس کا سسر بالوں سے پکڑ کر اسے گھسیٹ رہا تھا تو عورت کے باپ یا بھائیوں میں سے کوئی بھی سامنے نہیں آیا اور کسی نے بھی اس کی طرفداری نہیں کی، اس کو بچانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ سسر حق پر تھا اور وہ عورت غلطی پر تھی۔

اس نافرمان عورت کو اپنے سسر کی مار پیٹ سے بچانے کے لیے کوئی نہیں آیا کیونکہ یہ عورت کا معاملہ ہے۔ جب اس کی شادی ہو گئی تو اپنے سسرال کی ملکیت ہو گئی اس لیے میکے کے پاس سسرال کے تشدد سے بچانے کا حق ہی نہیں۔ جب آپ اپنی سائیکل یا گائے بیچ دیتے ہیں تو پھر اگلا مالک تو اسے اپنی مرضی کے مطابق ہی استعمال کرتا ہے۔

شکر ہے کہ ہماری اکثریت سسرال کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں ہمارے بڑے بڑے علما بھی مردوں اور سسرال کے اس حق کے خلاف ہر آواز کو پہچان جاتے ہیں کہ وہ مغرب زدہ لوگوں کی ہے اور ایسی آوازوں کو دبانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ابھی تک ان مغرب زدہ مادر پدر آزاد لنڈے کے لبرل مردوں اور خاص طور پر عورتوں کی ایسی تمام آوازوں کو بہت کامیابی سے دبایا گیا ہے۔ اسی لیے یا تو گھریلو تشدد کے خلاف کوئی قانون آ نہیں سکا اور اگر کہیں کمزور سا قانون آیا ہے تو اس کے خلاف اتنا شور کیا گیا کہ اس کے اطلاق کی نوبت ہی نہیں آ سکی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد مغرب زدہ اور دیسی لنڈے کے لبرل شور کریں گے اور ایسی ایسی باتیں کریں گے کہ ہمارے ملک کی بہت بے عزتی ہو گی۔ وہ اس بات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اس ملک میں نئے نئے قانون بنانے کی کوششیں بھی کریں گے۔ ان لبرل لوگوں کو عورتوں کا بڑا درد ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا کام ہے کہ ہم مردوں اور سسرال کے اس حق کا پوری طاقت سے دفاع کریں۔ یہ ہمارا بنیادی حق ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو سدھاریں اور اس کام کے لیے ڈنڈے کے استعمال کی ضرورت اور اجازت ہے۔ عورتوں کے لیے بھی یہی بہتر ہے۔ عورتوں کو چاہیے کہ یورپ کی عورت کے حقوق کے چکر میں پڑ کر اپنے آپ کو برباد نہ کر لیں۔ اس معاشرے نے انہیں جو حقوق دے رکھے ہیں وہ انہیں دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتے۔

ڈی جی خان والی فلم میں گھسیٹی جانے والی بہو کو چاہیے تھا کہ اپنے سسر بے چارے کو اتنا ذلیل نہ کرتی۔ اس بے حیا عورت نے تو ہماری عظیم اقدار کا جنازہ ہی نکال دیا۔ خیر جو ہو گیا وہ تو ہو گیا۔ ابھی بھی وقت ہے کہ جلدی سے آگے بڑھے، اپنے سسر سے معافی مانگے۔ فوری طور پر اسے پولیس اور مقدمے کے چکر سے آزاد کرائے۔ ورنہ ہمارا معاشرہ تباہ ہونے سے بچ نہیں سکے گا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik