ساحل اور ہماری غیر ذمہ داریاں۔۔۔


سمندر کے کنارے واک کرتے ہوئے گرمی سے نڈھال تھا۔ وہی سمندر جہاں ہروقت یخ بستہ ہوائیں چلتے تھے اور گرمیوں میں بھی سرد ہوائیں چلتے تھے۔ آج عجیب موسم کا سماں تھا۔ درجہ حرارت بھی پچاس سینٹی گریڈ کے قریب پہنچ چکی تھی۔ کبھی سنا نہیں تھا کہ اتنا گرمی ہوا ہے۔ جس ساحل کے کنارے ہم رہ رہے ہیں۔ وہاں گرمیوں کے موسم میں گرمی کا زیادہ زور نہیں ہوتا تھا۔ چند سالوں سے درجہ حرارت کا یکدم بڑھنا اور شام کے اوقات میں گرم ہواؤں کا چلنا موسمی تبدیلیوں اور ماحولیاتی تغیرات کی  خطرناک اشارہ کررہا ہے۔

کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ ترقی کے ثمرات ہمارے علاقے تک پہنچ چکے ہیں۔ پھر خیال آتا ہے کہ درجہ حرارت کے بڑھنے اور طویل خشک سالی کو ترقی سے کیا واسطہ؟
پھر  وجہ جاننے کے لئے جستجو کی طرف نکلتا ہوں۔

مکران کے ساحلی علاقوں میں گذشتہ چند سالوں سے بارشوں کا معمول کے مطابق نہ ہونا اور درجہ حرارت کے یکدم بڑھنے کو ہم ابھی کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ مسقبل قریب میں آنے والے خطرات سے بے خبر آج بھی ہم ساحل کو گندا کررہے ہیں۔ فش کمپنیوں اور برف کارخانوں کے فاضل مواد کو ساحل میں پھینک کر ہمیں یہ بھی احساس نہیں ہورہا ہے کہ ہم خود اپنے ساحل کو تباہ کرکے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔

ساحل کے قریب پلاسٹک کی غیر حل پذیر تھیلوں کو ایسے جمع کررہے ہیں جیسے سونے اور چاندی کو اپنے گھروں کی الماری میں خوبصورتی کے ساتھ سجا کے رکھتے ہیں۔
ساحل کنارے جہاں سمندری مخلوقات گھونسلے بناتی ہیں وہاں آج کچرے اور پلاسٹک کی تھیلے پڑے ہیں۔ کمپنیوں کے فاضل اور زہریلے مواد کو ڈمپنگ کی بجائے سمندر کے اندر پھینکا جارہا ہے۔
سمندر کی نیلی رنگت آلودگی کا شکار ہو کر اب کالی رنگت میں بدل چکی ہے۔ پھر بھی ہمیں احساس تک نہیں ہورہا ہے۔

خشک سالی کی وجوہات جاننے کی بجائے ہم پانی کی قلت پر روز سیاست کررہے ہیں۔ جہاں درخت لگانے کی ضرورت ہے وہاں ہم درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر بطور ایندھن استعمال کررہے ہیں۔ کیونکہ اس پر شکوہ اس لئے نہیں کہ اب تک گیس ہم تک پہنچ نہیں سکی ہے۔

شہر کے کچرے کو ڈمپنگ کی بجائے ساحل سے چند میٹر کے فاصلے پر اب بھی پھینکا جارہا ہے۔ تیز ہواؤں کی وجہ سے یہ کچرا سمندر میں مکس ہوکر نہ صرف سمندری مخلوق کی موت کا باعث بن رہا ہے، بلکہ سائبریا سے آنے والے پرندے بھی اس کی زد میں آکر موت کے شکنجے میں جارہے ہیں۔ ساحل کنارے آباد انسانوں کی خوراک بھی سمندری مخلوق ہوتی ہے۔ جب سمندر گندا ہوتو سی فوڈ پر بھی منفی  اثرات مرتب ہوں گے۔ انسان سی فوڈ کو کھانے کے بعد بیماریوں میں مبتلا ہوں گے۔

اس سے ہم کو کوئی سروکار نہیں کہ کیونکہ ہم کرپشن کرکے مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ صحت و صفائی اپنی جگہ خود اپنے ساحل کو گندا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
فش کمپنیوں اور آئس فیکٹریوں کی جانب سے ماحولیاتی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی جاری ہے۔ پھر بھی ہر طرف خاموشی کا سماں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).