اور بات دہلی تک پہنچ گئی ۔۔۔


 

بات سے بات بننا اور بنتے بنتے بتنگڑ بن جانا پھر اس کا چاروں اطراف پھیل جانا یہ تو ایک عام سی بات ہے برصغیر کے معاشرے میں پر مملکت خداداد کے کئی اہم راز جو کئی سالوں سے ڈھانپ کر رکھے گئے تھے ان تمام رازوں کا یوں باآسانی افشا ہوجانا اور دہلی تک پنہچ جانا یہ بات ذرا نہیں بہت حیرتناک سی لگتی ہے کیوں کہ ماضی میں اگر دیکھا جائے تو ایسی یا پھر اس سے ملتی جلتی حرکات کا سوچنے والوں (سویلینز) پر بغیر کچھ سوچے سمجھے اور بلا تاخیر غداری کا الزام لگ جاتا تھا اور کئی افراد قرار واقعی سزا بھی پا چکے ہیں پر اس بار چوں کہ یہ غلطی کسی ،بلڈی سویلین، نے نہیں کی ہے تو شور بھی کافی کم کم مچا ہے اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی بھی کوئی خاصے پریشان تو ابھی تک نظر نہیں آ رہے حتی کہ انہیں پوزیشن واضح کرنے کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا گیا، اس کے بعد پاک فوج نے سابق سربراہ آئی ایس آئی کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا اور موصوف کا نام ای سی ایل میں بھی ڈال دیا گیا ہے پر سیاسی پنڈت اس حوالے سے ابھی تک کوئی بھی واضح پیشگوئی کرتے نظر نہیں آ رہے اور پکچر دھندلی سی نظر آرہی ہے، بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں والی صورتحال تو ہے ہی پر دیکھنا یہ ہے کہ اب متنازع کتاب ،spy chronicles: Raw ISI and the illusion of peace,کا معاملہ کیسے حل کیا جاتا ہے، سابق ڈی جی آئی ایس آئی کیساتھ بھی سویلین جیسا سلوک اختیار کیا جائے گا اور کیا اہم فوجی راز دشمن کو بتانے کی پاداش میں انہیں غدار ڈکلیئر کیا جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آجکل رضا ربانی سمیت تمام سویلینز کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔

 پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیز کے سابق سربراہان کی جانب سے مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب میں کارگل آپریشن، ایبٹ آباد آپریشن، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے، بھارت میں تو اس کتاب پر کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا پر چونکہ پاکستان میں سیاسی صورتحال اپنے پڑوسی ملک سے یکسر مختلف رہی ہے اور ہمارے ہاں غدار، غدار کا کھیل تقریباً اتنا ہی پرانا ہے جتنا اس ملک کی تاریخ اور سویلین غدار و ملک دشمنوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر بندہ لکھنے بیٹھ جائے تو شاید سیاہی ختم ہوجائے،راولپنڈی سازش کیس سے لے کر اگرتلہ یا پھر حیدرآباد سازش کیس میں کتنے سویلینز/ سیاستدانوں کو غدار قرار دے کر سزائیں دی گئیں؟  پر اب جبکہ اسپائی کرونیکلز کا معاملہ یکسر مختلف ہے کیوں کہ یہاں الزام لگانے والا یا پھر راز افشا کرنے والا کوئی اور نہیں انٹر سروسز انٹیلیجنس کا سابق سربراہ اسد درانی ہے، جنہوں نے ماضی قریب میں سیاست میں بھی مداخلت کی تھی اور 1990ع کے انتخابات میں بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرکے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا تھا، اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ رکارڈ پر ہے جس میں نوے کے انتخابات میں دھاندلی ہونے کی مہر ثبت کی گئی تھی پر کسی نے جنرل رٹائرد اسد درانی اور دیگر ذمہ داران سے پوچھ گچھ کی ہمت ہی نہیں کی تھی پر اب جبکہ راولپنڈی/ اسلام آباد کے اہم ڈھکے چھپے معاملات دیدہ دلیری کے ساتھ دہلی تک شیئر کئے گئے ہیں تو بھئی اب راستہ روکنا تو بنتا ہے نا، چلیں دیکھتے ہیں ہوتا کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).