مریم نواز الیکشن میں مسلم لیگ نواز کیلئے “ایکس فیکٹر” ہیں


 مریم نواز گزشتہ چند ماہ سے مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ڈان لیکس سے لے کر این اے ایک سو بیس لاہور کا ضمنی انتخابی معرکہ اور احتساب عدالت کی پیشیوں سے لے کر جلسے جلوسوں میں ان کی عدلیہ اور ایسٹیبلیشمنٹ کے خلاف تند و تیز تنقید نے انہیں ایک طرح سے مسلم لیگ نواز کا نیا چہرہ بنا ڈالا ہے۔ مریم نواز کے سیاسی سفر کی کہانی اور ان کا سیاسی عروج سیاسی ڈھانچے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مرہون منت دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی نے ملکی اور بین الاقوامی سیاست کی ہیئت کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اور ٹیکنالوجی و سائنس کی مرہون منت ایک نئی تہذیب نے سیاست اور سیاستدانوں کو اپنا روایتی انداز بدلتے ہوئے عام ورکر اور انسانوں کی توقعات کے مطابق سیاست کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سیاست چاہے امریکہ میں ہو برطانیہ میں یا برصفیر میں محض بڑے نام کھڑا کرنے سے اب کامیابی کی قطعا گارنٹی نہیں ہوتی۔ امریکہ میں ہیلری کلنٹن کی انتخابات میں مات اس ضمن میں ایک تازہ مثال ہے۔

پاکستان میں بھی بتدریج عوام کی سیاسی عمل میں شرکت اور سوشل میڈیا سے لیکر ابلاغ کے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے عوام نے روایتی سیاستدانوں اور سیاست کے انداز کو بتدریج بدل ڈالا ہے۔ وہ سیاست دان یا سیاسی جماعتیں حو اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر رہیں آہستہ آہستہ ملکی انتخابی سیاست کے دائرہ سے خارج ہوتی چلی گئیں۔ جماعت اسلامی کی مثال اس ضمن میں نمایاں ہے جسکا ووٹ بینک بتدریج سکڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی وفاق کی جماعت کہلایا کرتی تھی اور ملک کے ہر شہر سے انتخابی سیاست میں ایک بااثر اور طاقتور ووٹ بنک رکھتی تھی اب سمٹ کر صرف اندرون سندھ اور لیاری کی جماعت کے طور پر باقی رہ گئی ہے۔

وطن عزیز میں عام افراد کی سیاست میں دلچسپی اور انتخابی عمل میں شرکت کا سہرا جہاں تیزی سے بدلتے ہوئے مختلف مقامی اور بین الاقوامی عوامل کے سر ہے وہیں عمران خان نے بھی اس ضمن میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سن 2011 سے لیکر آج کے دن تک عمران خان نوجوانوں اور اپر مڈل کلاس کے افراد کو سیاست میں متحرک رکھنے میں کامیاب رہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ایسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان اپنے بیانیے کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے دم پر تقویت دے کر پرانی سیاسی جماعتوں میں شگاف ڈال رہے تھے اس وقت مسلم لیگ نون جیسی قدامت پسند جماعت کو اپنا تشخص برقرار رکھنے کیلئے ایک نئی سوچ اور ویژن کی ضرورت تھی۔ اور مسلم لیگ نون کیلئے یہ کام مریم نواز نے انجام دیا۔ نہ صرف انہوں نے عمران خان اور ایسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے کا تدارک کیا بلکہ مسلم لیگ نون کا ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا۔ مریم نواز نے مسلم لیگ نون کے پرانے لیڈروں یا حمزہ شہباز اور شہباز شریف کی روایتی سوچ اور فلسفے کے برعکس نہ صرف ایک اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیہ تشکیل دیا بلکہ قدامت پسند نظریات سے بھی اپنی جماعت کو چھٹکارا دلواتے ہوئے اسے ایک قدرے لبرل جماعت میں تبدیل کر دیا۔ اپنے والد کو انہوں نے اس بات پر آمادہ کیا کہ سمجھوتے کی سیاست کی اب وطن عزیز میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون میں موجود وہ افراد جو روایتی طور پر ایسٹیبلیشمنٹ کے آگے سرنڈر کرنے کو ترجیح دیتے ییں اس وجہ سے شدید مخمصے کا شکار ہیں۔ روایتی طور پر ایسٹیبلیشمنٹ کو قابل قبول جماعت مسلم لیگ نون آج کیا واقعی محض مریم نواز کی وجہ سے ایسٹیبلیشمنٹ کیلئے ناقابل قبول بن چکی ہے؟

اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں چند سال پہلے کے حالات و وْاقعات کا بغور مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے مشرف کے مارشل لا کے بعد اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیے کی بنیاد تو رکھی تھی لیکن بی بی کے قتل کے بعد اور مشرف کو عہدہ صدارت سے باہر نکالنے کے بعد وہ کافی حد تک دوبارہ ایسٹیبلیشمنٹ کے قریب آ گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میمو گیٹ کے واقعے اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلے کے وقت وہ ایسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

2013 کے عام انتخابات کے بعد جب انہوں نے ایسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی پشت پناہی کرتے دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ اب پیپلز پارٹی کے بعد ان کی باری ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مریم نواز نے سوشل میڈیا کا محاذ سنبھالا اور عمران خان کے بیانیئے کے جواب میں ایک بیانیہ تشکیل دیا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد جب نواز شریف کی حکومت کو مفلوج کرتے ہوئے دھرنوں کے ذریعے مشرف کے فرار کے بعد خارجہ و اندرونی سیکیورٹی پالیسی کو ایسٹیبلیشمنٹ نے اپنے قبضے میں لیا تو اس دوران مریم نواز نے سوشل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے زریعے عمران خان اور ایسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے کو بری طرح ایکسپوز کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مریم نواز ایسٹیبلیشمنٹ کو کانٹے کی طرح کھٹکھنا شروع ہوئی۔

مریم نواز نے اپنے والد کو جہاں اسٹیبلشمنٹ سے مزید سمجھوتے نہ کرنے کا مشورہ دیا وہیں انہوں نے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو پارٹی سے وابستگی کیلئے راغب کیا۔ مسلم لیگ نون ہمیشہ سے بابوں اور تاجر پیشہ حضرات کی جماعت رہی ہے۔ غالبا مریم نواز کی صلاحیتوں کی وجہ سے اب یہ جماعت ہنجاب کی مڈل کلاس کے نوجوانوں میں بھی بیحد مقبول ہو گئی ہے۔ مریم نواز کا کارکنوں بالخصوص نوجوان کارکنوں سے رابطے نے انہیں پڑھی لکھی اربن کلاس میں بھی کافی حد تک مقبولیت دلوائی۔ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد دیوار سے لگی ہوئی مسلم لیگ نون کو بھی مریم نواز نے اپنے جارحانہ انداز سے نہ صرف میدان سیاست میں واپسی دلوائی بلکہ پانامہ مخالف ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دیکر اپنے ووٹرز کو سیاسی ہزیمت سے بھی بچایا۔ این اے 120 میں مسلم لیگ نون کی دھڑا بندی حمزہ شہباز کی ناراضگی اور عدم موجودگی کے باوجود انہوں نے کلثثوم نواز کی انتخابی مہم کامیابی سے چلائی اور فتح حاصل کی۔ مریم نوز نے این اے 120 کا انتخاب جیتنے کے بعد اور نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی کے عدالتی فیصلے کے بعد جو جارحانہ بیانیہ اپنایا اور جو دھواں دھار تقاریر کیں اس کے بعد سے اب تک ان کا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ یاد رہے نواز شریف کو جی ٹی روڈ سے سفر کروانے میں آمادہ کروانے میں بھی مریم کا کلیدی کردار تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ مریم نواز کا فیصلہ درست تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2