فکراقبال اور غلطی ہائے مضامین (3)


\"sajidاس مضمون کی گزشتہ قسط میں ہم اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں تقسیم ہند کا کوئی نظریہ پیش نہیں کیا تھا۔ ان کے جس جملے سے یہ مطلب نکالا جا رہا ہے وہ صرف سٹیٹ کے لفظ کے معنی کو درست طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اس جملے میں اقبال نے سٹیٹ کا لفظ صوبے کے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ یہ رائے محض میری نہیں بلکہ بہت سے لوگ اس کا اظہار کر چکے ہیں تاہم ان میں سے بھی بعض لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ دراصل اقبال نے جناح کے نام خطوط میں الگ آزاد اور خود مختار مملکت کا تصور پیش کیا تھا۔ اس لیے لازم ہو جاتا ہے کہ ان خطوط کا بھی جائزہ لے کر جانا جائے کہ یہ موقف کہاں تک درست ہے۔

اقبال کے جناح کے نام کل تیرہ خطوط ہیں جن میں زیادہ تر مسلم لیگ کے داخلی معاملات، پنجاب میں یونیینسٹ پارٹی کے ساتھ معاملات اور سکندر جناح پیکٹ کے حوالے سے ہیں۔ ان خطوط سے واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال اتحاد پارٹی کی سیاست کو سخت ناپسند کرتے تھے اور سکندر جناح پیکٹ کے متعلق ان کے شدید تحفظات تھے۔ ان تیرہ خطوط کی داخلی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ پہلا خط جناح کے خط کے جواب میں لکھا گیا ہے اور اس کے بعد جناح نے صرف دو خطوط کا جواب دیا ہے، لیکن سکندر جناح پیکٹ کے بارے میں لکھے گئے کسی خط کا جواب نہیں دیا گیا۔اس مضمون میں زیر بحث مسئلے کے بارے میں تین خطوط بہت اہم ہیں۔ لیکن ان خطوط کا جائزہ لینے سے پیشتر یہ مناسب ہو گا کہ ان کے پس منظر کا ایک طائرانہ جائزہ لے لیا جائے۔

اقبال کے خطبہ الہ آباد کے بعد ہندوستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ 1935 کے ایکٹ کا نفاذ ہو چکا تھا جو مسلمانوں کے نقطہءنظر سے مایوس کن تھا۔ اس ایکٹ کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی منعقد ہو چکے تھے جن میں کانگرس نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ کی کارکردگی اقلیتی صوبوں میں تو بری نہ تھی مگر اکثریتی صوبوں میں بہت خراب رہی تھی۔ صوبوں میں کانگرسی حکومتوں کے قیام کے بعد ہندووں کا رویہ بہت جارحانہ ہو چکا تھا۔ حتی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کے خلاف ان کی سرگرمیاں شدت اختیار کرتی جا رہی تھیں۔ اقبال کے خیال میں وہ مسلمانوں کو دہشت زدہ کر دینا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے بارے میں کانگرس کا رویہ منیر نیازی کے الفاظ میں یہ تھا کہ

لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے۔

کانگرس نے  19 مارچ 1937ء کو دہلی میں ایک کل ہند قومی کنونشن کا انعقاد کیا جس میں صوبائی اسمبلیوں کے آٹھ سو کانگرسی ارکان نے شرکت کی تھی۔ پنڈت نہرو نے اس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مسلم عوام سے رابطہ کرنے کی مہم چلانے کا اعلان کیا۔ پنڈت جی کو اعتراف تھا کہ اس وقت تک کانگرس مسلم عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ان کے نزدیک اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ کانگرس اب تک فرقہ پرست رہنماو ¿ں سے بات چیت کرتی رہی ہے۔ اب وقت آ گیا تھا کہ مسلمانوں سے براہ راست رابطہ کرے انہیں کانگرس میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے۔ اس تقریر میں انہوں نے فرمایا:

” تعجب ہے کہ ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک الگ گروہ تصور کرکے ہندوؤں سے سمجھوتہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ انداز فکر قرون وسطیٰ میں رائج ہو تو ہو، موجودہ زمانے میں اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ آج کل ہر چیز پر اقتصادی نقطہ نظر سے غور کیا جاتا ہے۔ جہاں تک افلاس، بے کاری اور قومی آزادی کا سوال ہے، ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور مسیحیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ چوٹی کے فرقہ پرست لیڈر ہر وقت حصے بخرے کرنے اور بٹوارے کی باتیں کرتے رہتے ہیں کہ ان کی قوم کو ملازمتوں میں کتنا حصہ ملے گااور اسمبلی میں کتنی نشستیں حاصل ہوںگی۔ ان لیڈروں کو چھوڑ کر جب ہم عوام سے براہ راست ملتے ہیں تو ہمیں وہی مشترکہ مسائل کارفرما نظر آتے ہیں، جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، یعنی افلاس، بے کاری اور قومی آزادی کی لگن۔“ (بحوالہ اقبال کا سیاسی کارنامہ از محمد احمد خان ، ص 456۔ خطوط کے ترجمے کے لیے میں نے اسی کتاب پر انحصار کیا ہے البتہ چند مقامات پر الفاظ کو تبدیل کیا ہے۔)

پنڈت نہرو کے اس اعلان کے اگلے ہی دن(20 مارچ 1937) اقبال نے جناح کو یہ خط تحریر کیا:

”مائی ڈیر مسٹر جناح! آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کے اس خطبہ کو پڑھا ہو گا، جو انہوں نے آل انڈیا نیشنل کنونشن میں دیا تھا اور یہ کہ آپ نے اس پالیسی کا پوری طرح اندازہ کر لیا ہوگا، جو مسلمانوں کے متعلق اس خطبے میں بیان کی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس امر سے پوری طرح باخبر ہیں کہ نئے دستور نے کم از کم مسلمانان ہند کو ان سیاسی تغیرات کے پیش نظر، جو مستقبل میں ہندوستان اور مسلم ایشیا میں رونما ہونے والے ہیں، اپنے آپ کو منظم کرنے کا ایک انوکھا موقع فراہم کیا ہے۔ ہم ملک کی دوسری ترقی پسند جماعتوں سے بے شک تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ایک اخلاقی اور سیاسی طاقت کی حیثیت سے اسلام کے پورے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک مسلمانان ہند کی مکمل تنظیم پر ہے۔ لہٰذا میں تجویزپیش کرتا ہوں کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کا ایک موثر جواب دیا جائے۔ آپ کو چاہیے کہ دہلی میں جلد از جلد ایک آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کریں، جس میں نئی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے علاوہ دوسرے ممتاز مسلم رہنماؤں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے۔ آپ کو چاہیے کہ اس کنونشن کی طرف سے پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ممیز، جداگانہ سیاسی وحدت کا بطور نصب العین اعلان کر دیں۔ یہ امر قطعاً ناگزیر ہے کہ ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دنیا کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہندوستان کا حل طلب مسئلہ صرف معاشی مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ مسلم نقطہءنظر سے ثقافت اور تہذیب کا مسئلہ نسبتاً زیادہ دور رس نتائج کا حامل اور بہر نوع کسی طرح معاشی مسئلہ سے کم اہم نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا کنونشن منعقد کر سکیں تو ان مسلم ارکان مجالس قانون ساز کی حیثیت کا پول کھل جائے گا، جنہوں نے مسلمانان ہند کی خواہشوں اور تمناؤں کے خلاف اپنی جداگانہ جماعتیں قائم کر لی ہیں۔ مزید برآں اس کنونشن سے ہندووں پر بھی عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی چال، خواہ وہ کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، ہندی مسلمانوں کو اپنی ثقافتی وحدت سے غافل نہیں کر سکتی۔“

 اقبال نے 28 مئی کو جناح کے نام ایک اور طویل خط بصیغہ راز تحریر کیا جس میں ہمارے زیر بحث موضوع کے متعلق اقبال نے دو اہم باتیں کی ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل ”ایک یا ایک سے زاید آزاد مسلم ریاستوں کے بغیر ممکن نہیں۔ کئی سال سے یہ میرا ایماندارانہ ایقان رہا ہے اور میں اب بھی مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ حل کرنے کا اور ایک پرامن ہندوستان حاصل کرنے کا اسی کو واحد طریقہ سمجھتا ہوں۔۔۔ان مسائل [اقتصادی اور معاشرتی جمہوریت] کو مسلم ہندوستان میں حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو از سر نو تقسیم کیا جائے اور ایک یا ایک سے زاید ایسی مسلم ریاستیں قائم کی جائیں، جہاں (مسلمانوں کی ) اکثریت قطعی ہو، کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا ہے؟“ ( ایضاً۔ ص 474-5)

اس خط میں ملک کی از سر نو تقسیم کی جو تجویز پیش کی گئی ہے اس کا مطلب صوبوں کی نئی حد بندی ہے تاکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو واضح اکثریت حاصل ہو اور وہ موثر حکومت تشکیل دے سکیں جو اپنے وجود کے لیے غیر مسلموں کی حمایت کی محتاج نہ ہو۔ کیونکہ اقبال کے خیال میں”ایک پرامن ہندوستان حاصل کرنے کا“ یہی واحد راستہ ہے۔ وہ تقسیم ہند کا کوئی فارمولا پیش نہیںکر رہے۔

اس خط کا جواب موصول ہونے پر اقبال نے 21جون کو ایک اور طویل خط بصیغہ راز لکھا جو اس سلسلے کا شاید اہم ترین خط ہے جس میں اقبال نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے۔

” مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ دستور جدید ہندووں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریت کے صوبوں میں ہندووں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ وہاں مسلمانوں کو بالکلیہ نظر انداز کر سکتے ہیں۔ برخلاف اس کے مسلم اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو ہندووں کا دست نگر رکھا گیا ہے۔ مجھے اس امر میں شک و شبہ کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ موجودہ دستور ہندی مسلمانوں کے لیے زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے۔ مزید براں یہ دستور تو اس معاشی تنگ دستی کا جو مسلمانوں میں شدید تر ہوتی جا رہی ہے، کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ فیصلہ (communal award)ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی ہستی کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن کسی قوم کی ایسی سیاسی ہستی کا اعتراف، جو اس کی معاشی پس ماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کرتا ہو اور نہ کر سکے، اس کے لیے بے سود ہے۔

کانگرس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی حیثیت ہی سے انکار کر دیا ہے۔ ہندووں کی دوسری سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا نے، جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت سمجھتا ہوں، بارہا اعلان کیا ہے کہ ہندو اور مسلمان کی متحدہ قومیت کا وجود ہندوستان میں ناممکن ہے۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ ایک پرامن ہندوستان حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ لسانی، مذہبی اور نسلی میلانات کی بنا پر ملک کو ا ز سر نو تقسیم کر دیا جائے۔

اکثر برطانوی مدبرین اس حقیقت کو محسوس کرتے ہیں اور ہندو مسلم فسادات جو اس دستور کے جلو میں پوری تیزی سے رونماہو رہے ہیں، یقین ہے کہ ملک کی صحیح صورت حال کوان پر واضح کر دیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے میری روانگی سے قبل لارڈ لوتھیان نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری اسکیم ہی ہندوستان کی مشکلات کی واحد ممکنہ حل ہے، لیکن اس کے بارآور ہونے کے لیے پچیس سال درکار ہوں گے….

میرے خیال میں تو جدید دستور سارے ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کر لینے کی تجویز کی بنا پر بالکلیہ یاس انگیز ہے۔ ان خطوط پر جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے مسلم صوبوں کے ایک علیحدہ وفاق (separate federation ) کی تشکیل ہی وہ واحد طریقہ عمل ہے، جس کے ذریعے ہم ایک پرامن ہندوستان حاصل کر سکتے ہیںاور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے بچا سکتے ہیں۔

شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو کیوں نہ ایسی قوم قرار دیا جائے، جنہیں ہندوستان کے اندر اور ہندوستان سے باہر رہنے والی دوسری قوموں کے مانند خود اختیاری کا استحقاق ( right to self-determination) ہے؟

ذاتی طور پر میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیتی صوبوں کو نظر انداز کر دینا پڑے گا۔ مسلم اکثریت اور مسلم اقلیت کے صوبوں کا مفاد اسی طریقہ کار کے اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ “ (ایضاً۔ ص 471-73)

اس خط میں اقبال نے دو بہت اہم باتیں کی ہیں جو بہت دوررس نتائج کی حامل ہیں۔ اولاً مسلم صوبوں کے علیحدہ فیڈریشن کی تجویز پیش کی ہے جس میں وہ ایک آزاد ملک کے مطالبے کے بہت قریب آ گئے ہیں لیکن اقبال اس تجویز کو ایک پرامن ہندوستان کے حصول کی شرط قرار دے رہے ہیں۔ بعد کے حالات اور ہندووں کے رویے نے حالات کو اس ڈگر پر ڈال دیا جہاں تقسیم کے سواکوئی اور چارہ نہ تھا۔

ان کی دوسری تجویز اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے بارے میں ہے کہ فی الحال اکثریتی صوبوں کو انہیں نظر انداز کرنا پڑے گا۔ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں بھی پاسنگ کے تصور کو رد کرکے پنجاب اور بنگال میں ان کی اکثریت کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔ میثاق لکھنﺅ میں بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کی اکثریت کم کرکے یو پی، بہار اور دیگر صوبوں کے مسلمانوں کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا تھا جس کا اقلیتی صوبوں کو تو کوئی فائدہ نہ ہوا اور اکثریتی صوبوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ چنانچہ اقبال اس پاسنگ کو رد کرکے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔

اب اگلی قسط میں اس بات پر بحث کریں گے کہ آخر پاکستان کے تصور کو مکمل طور پر اقبال سے منسوب کرنے کی وجوہ کیا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments