معیشت، تعلیم اور ہماری ترجیحات


\"mudasarکسی بھی ملک کی معیشت کی صحت کو جاننے کے لئے اس ملک کا جی ڈی پی دیکھا جاتا ہے۔ جی ڈی پی یعنی Gross Domestic Product سے مراد اس ملک کی جغرافیائی حد کے اندر ایک مخصوص وقت میں پیدا ہونے والی اشیاء کی مجموعی قیمت۔ یہ عرصہ تین ماہ سے ایک سال کے دورانیہ پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ آسان الفاظ میں جی ڈی پی کسی ملک کی مجموعی آمدنی کو کہا جاتا ہے۔ ہر ملک اپنا ایک سالانہ بجٹ پیش کرتا ہے جو تخمینہ ہوتا ہے آئندہ ایک سال یا جتنی مدت طے کی جائے اس کے دوران خرچ کا۔

بجٹ کو عموما تین حصوں فلاحی، ترقیاتی اور انتظامی، میں تقسیم کر کے اس ذیل میں آنے والے تمام شعبہ جات کے لئے رقم مقرر کی جاتی ہے۔ یہ رقم جب ایک مقررہ اندازہ سے زیادہ خرچ ہو جائے یا منصوبوں کے لئے پیش کیا گیا بجٹ مہیا وسائل سے زیادہ ہو جائے یا کسی ملک یا مالیاتی ادارہ سے لیا گیا سود پر ٹیکس واپس کیا جائے تو بجٹ خسارہ یعنی Budget Deficit پیدا ہو جاتا ہے۔ اپنے بجٹ خسارہ کو کم کرنے اور بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ممالک عالمی مالیاتی اداروں جیسے کہ آئی ایم ایف وغیرہ سے سود سمیت سخت شرائط پر قرضے لیتے ہیں۔ پرویز مشرف صاحب کے دور میں شوکت عزیز پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اپنی ناقص پالیسوں کی بناء پر موجودہ حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لیے کھڑی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 68.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے سر پر ایک لاکھ بیس ہزار قرض لے کر پیدا ہو رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے سود سمیت کڑی شرائط کے ساتھ قرض دیتے ہیں، سر دست ان سخت شرائط کا اثر پی آئی اے کی نیلامی، بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور تاجروں پر ودھولڈنگ ٹیکس نیز متعدد اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ کی صورت میں سامنے آیا۔ حکومت بجائے ٹیکس نیٹ کو بہتر بنانے کے قرضے لے رہی ہے جو بذات خود اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان میں ٹیکس اکھٹا کرنے کا نظام ٹھیک طریقے سے کام نہیں کر رہا۔

\"army2\"ٹیکس کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جہاں دیگر ممالک میں شہری رضاکارانہ طور پر ٹیکس جمع کرواتے ہیں وہیں ہمارے ملک میں ٹیکس چوری کا رجہان پایا جاتا ہے۔ حالیہ پانامہ لیکس نے ایک نیا پنڈورابکس کھول دیا ہے جس میں ہونے والے بد عنوانیوں پر غیر بھی انگشت بدنداں ہیں۔ ٹیکس سے بچنے کے لئے بڑے بڑے فلاحی ادارے بنا لئے جاتے ہیں جن کی آڑ میں فیکٹریاں چلائی جاتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس دینے کی شرح سب سے کم ہے۔ پاکستان میں ٹیکس دینے والوں کی کل تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے جو کل تعداد کا 0.3 فیصد بنتا ہے۔ اگر ٹیکس وصولی کا نظام بہتر ہو جائے تو بیرونی قرضوں کے ساتھ بجٹ خسارے سے بھی نجات مل سکتی ہے۔

کسی ملک کی ترجیہات کا اندازہ اس کے بجٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نزدیک کس شعبہ کی کیا اہمیت ہے اور وہ اپنی توانائی کا کتنا حصہ متعلقہ شعبہ پر خرچ کر رہا ہے۔

\"Army\"اگر موازنہ کیا جائے تو دنیا میں اس وقت مجموعی طور پر ایک بڑا حصہ دفاعی ضروریات پر خرچ ہو رہا ہے۔ دوسروں کے وسائل پر قبضے حرص، لالچ، اسلحے کی دوڑ میں سبقت لے جانے اور اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں \’ضرورت\’ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ وسائل کو ایسے کاموں میں بروئے کار لایا جاتا جس کا انجام تباہی اور صرف تباہی ہے۔ اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سال 2012 میں دفاعی اغراض کے لئے خرچ کیئے جانی والی رقم کا حجم 1.7 ٹریلین ڈالر سے زائد تھا۔ اس کے بالمقابل تعلیم کے لیے 54 بلین ڈالر پوری دنیا میں خرچ کیے گئے۔

اپنی جی ڈی پی کا ایک کثیر حصہ دفاع پر خرچ کرنے والے ممالک میں سے، سعودی عرب 12.9 فیصد، عراق 12.7 فیصد، امریکہ 4.5 فیصد، الجیریا 6.2 فیصد، روس 4.3 فیصد، پاکستان 3.3 فیصد، جنوبی کوریا 2.4 فیصد، برطانیہ 2.0 فیصد، فرانس 1.9 فیصد، اور انڈیا 1.4 فیصد جی ڈی پی دفاع کے مد میں خرچ کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض ممالک ایسے ہیں جن کی سالمیت کو ایسا کوئی خطرہ نہیں لیکن پھر بھی وہ تباہی کے سامان پیدا کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ دوسری طرف شرح خواندگی کے لحاظ سے دس بڑے ممالک میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔ وہ ممالک جہاں شرح خواندگی کا تناسب سے زیادہ ہے ان میں آرمینیا 99.8 فیصد، جارجیا 99.8 فیصد، آزر بائیجان 99.8 فیصد، اٹلی 99.2 فیصد، سائپرس 99.1 فیصد، ہنگری 99.1 فیصد، بوسنیا 98.5 فیصد، بلغاریہ 89.4 فیصد، چلی 97.3 فیصد، چین 96.4 فیصد، جب کہ نائجر، بورکینا فاسو، افغانستان، گیمبیا، سینیگال، بینن، ایتھو پیا، مورتانیہ اور کافی ایسے ممالک ہیں جن میں ناخواندی کی شرح ستر فیصد یا اس کے لگ بھگ ہے۔

\"School\"آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اپنی آمدنی کا ایک کثیر حصہ دفاع کی مد میں جھونک دینے والے ممالک میں سے صرف چین ایک ایسا ملک ہے جس کا شمار شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ دفاعی اخراجات کے معاملہ میں بعض ممالک کس قدر خبط میں مبتلاء ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ انڈیا نے صرف سرحد کی نگرانی کے لیے 9 ارب روپے کا زرکثیر خرچ کر دیا۔ جبکہ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں حال یہ ہے کہ سال 2014 میں 12630 کسانوں نے کسان کش حکومتی پالیسیوں اور غربت سے تنگ آکر خود کشیاں کیں۔ پاکستان میں دفاع کے لئے مختص کیے گئے بجٹ سے 47 فیصد زائد خرچ کیا گیا۔ ملکوں کا مختلف معماملات پر آپس میں تنازعات کا معاملہ ایسا ہے کہ اسے مل بیٹھ کر خوش اسلوبی سے بات چیت کے ذریعے بھی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی بنایا گیا، لیکن اس عالمی ادارے کی حیثیت انسانوں کی دنیا میں ایک بانجھ ادارے سے زیادہ نہیں جو چند بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ قیام امن عالم میں اس ادارے کا کردار بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر یہ ممالک اپنے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرلیں اور دفاع کی غرض سے سرمائے جھونکنے کی بجائے دنیا کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں تو بلاشبہ ارضی جنت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

\"School2\"کم سے کم جی ڈی پی کا 4 فیصدخرچ کرنے والے ممالک عالمی معیار کے مطابق تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں، البتہ بعض ممالک ایسے بھی ہیں جو اس سے کئی گنا زیادہ تعلیم کے لئے مختص کرتے ہیں۔ ان میں مارشل آئی لینڈ 15.0 فیصد، مالدیپ 11.2 فیصد، سوئٹزر لینڈ 7.8 فیصد، سعودی عرب 5.6 فیصد، برطانیہ 5.5 فیصد، امریکہ 5.5 فیصد، جرمنی 4.5 فیصد، میکسیکو 4.8 فیصد، جب کہ انڈیا 4.9 فیصد، بنگلہ دیش 2.4 فیصد اور پاکستان 2.7 فیصد جی ڈی پی کے برابر رقم سالانہ تعلیم کے لئے خرچ کرتا ہے۔ البتہ یہ الگ بحث ہے کہ پاکستان میں اس میں سے کتنا کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔

یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5.5 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

پاکستان جیسے پسماندہ، ترقی پذیر ممالک میں Child Labor یعنی بچوں سے مشقت اور کام کاج کروانے پر بات تو کی جاتی ہے لیکن اس کا متبادل فراہم نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں اس حوالے سے قانون بھی موجود ہے۔ عالمی فلاحی اداروں، سوشل، پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے دباؤ میں آکر بچوں کو جبری مشقت سے تو اٹھوا لیا جاتا ہے لیکن انہیں اسکول بھیجنے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ ان بچوں میں سے اکثریت ایسے بچوں کی ہے جو اپنے خاندانوں کے کفیل ہوتے ہیں۔ ان \"Childبچوں کو کام سے اٹھوانے کے سبب غربت کی چکی میں پس رہے ایسے خاندانوں پر عرصہ حیات اور تنگ ہوجاتا ہے، فاقوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو بالآخر خود سوزی پر منتج ہوتی ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو میرے نزدیک بچوں سے جبری مشقت کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ والدین غربت کی وجہ سے بچوں کو کام پر لگاتے ہیں، ریاست کو اس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو روزگار فراہم کرناریاست کی اولین ترجیحات میں سے ہونا چاہیئے۔ اگر عوام خوشحال ہوں تو والدین کیوں کر اپنے جگر گوشوں سے محنت مزدوری کروائیں گے؟

نیز پاکستان میں بڑی تعداد ایسے اساتذہ کی بھی ہے جو اسکول نہیں جاتے۔ گھر بیٹھے تنخواہیں اور دیگر مراعات پانے والے یہ ایسے لوگ ہیں جو معیشت پر بوجھ ہونے کے ساتھ ساتھ قوم کا مستقبل تباہ کرنے اور ہماری نسلوں کو جہالت کے جہنم میں دھکیلنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس معاملے میں ریاست کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اساتذہ کی نشاندہی کریں، اور ان کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں۔ والدین کو بچوں کی تعلیم کے حوالے ترغیب دلانے کی ضرورت ہے۔ ریاست کے ساتھ ہر فرد واحد معاشرے کی اصلاح اور ملکی فلاح و بہبود کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا تب ہی تبدیلی ممکن ہوگی۔ تعلیم کسی بھی ملک کی بقاء کی ضمانت ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی ترجیہات بدلنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments