کمیشن امپاسیبل


نوّے کی دہائی کے ابتدائی برس تھے، ایک انتہائی تابڑ توڑ شاعر( شاہ صاحب) اکثر اپنی تازہ کتاب تبصرہ کے لئے ارسال فرماتے تھے مگر میں خواہش کے با وجود ان کی کتاب پر تبصرہ کی سعادت کبھی حاصل نہ کر سکا۔ ایک بار کسی تقریب میں ملاقات ہوئی اور انہوں نے اس حوالے سے گلہ کیا تو میں نے حلفاً عرض کیا کہ اب تک کئی بارایسا ہو چکا ہے کہ میں آپ کی کتاب پر مضمون لکھنا شروع کرتا ہوں اور اسی دوران آپ کا اگلا دیوان آ جاتا ہے اور مضمون پرانا لگنے لگتا ہے۔ (شاہ صاحب نے کمال شفقت سے یہ عذر قبول کر لیا لیکن اس کے بعد آج تک مجھے ان کی کوئی تازہ کتاب موصول نہیں ہوئی)

نواز شریف کا بھی آج کل کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، ابھی کالم نویس ان کے ایک بیان سے نپٹ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اگلا داغ دیتے ہیں اورایک نیا محاز کھل جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ میاں صاحب روز کوئی نیا شوشہ چھوڑتے ہیں، کوئی نیا قضیہ کھڑا کرتے ہیں۔ بیگانے تو ان سے ناخوش تھے ہی، اب تو اپنے بھی ان کی کسی ناگہانی لب کشائی کے اندیشے سے سہمے رہتے ہیں ۔

قصرِ وزارت عظمیٰ سے بے دخلی کے کچھ دن بعدجی ٹی روڈ ریلی کے دوران انہوں نے ایک قوالی شروع کی، مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا، او ر پھر چل سو چل، وہ دن اور آج کا دن، میاں صاحب کوئی مصرع پیش کرتے ہیں اور سارا ملک اس پر طبع آزمائی کرتا ہے۔ پچھلے نو ماہ ملکی سیاست کا یہی چلن رہا ہے۔

طویل انتظار کے بعد آخر کار عمران خان صاحب نے ایک چھکا لگایا، اپنی ممکنہ حکومت کے پہلے سو دن کا ایجنڈا پیش کیا اور سیاسی بحث کو کھینچ کر اپنے ہوم گرائونڈ پر لانے میں کامیاب ہو گئے۔ کسی نے کہا ایک کروڑ نوکریاں یا ایک کروڑ کی نوکری، کوئی بولاپچاس لاکھ گھر کیا خان صاحب کے پالتو جنات بنائیں گے، وغیرہ، وغیرہ۔ کسی نے کچھ بھی کہا ہومگر بحث خان صاحب کی وکٹ پر ہو رہی تھی، خان صاحب کا ایجنڈا زیر بحث تھا، لیکن سپاٹ لا ئٹ کی ہوس میں مبتلا نواز شریف چند گھنٹوں سے زیادہ یہ سب برداشت نہ کر سکے۔

میاں صاحب نے ایک بیان صبح نیب عدالت میں جمع کرایا اور دوپہر میں وہی بیان میڈیا کے سامنے دہرا دیا۔ بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ’مجھے اس لئے نکالا کہ میں نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کا آغاز کیا تھا‘۔ آناً فاناً ملک کے طول و عرض میں اس موضوع پر بحث شروع ہو گئی۔ ایک دن میں لوگ ’سو دن‘ کا قصہ بھلا بیٹھے۔اسی طرح چند دن ہوئے ممبئی حملوں کی نسبت سے کچھ ایسا ارشاد فرمایا کہ ایک محاذ کھڑا ہو گیا۔ نیشنل سیکورٹی کونسل سے محب وطن میڈیا تک، ہر کوئی ابھی میاں صاحب کی گو شمالی کے لئے کمر بستہ ہوا ہی تھا کہ موصوف پھر کچھ اس طرح گو یا ہوئے ’وقت آ گیا ہے کہ تلاشِ حق کے لئے ایک نیشنل کمیشن بنایا جائے جو ہماری ستر سالہ تاریخ کا نتارا کر سکے۔‘ مولانا فضل الرحمٰن بولے کمیشن بنانے میں کوئی ہرج نہیں۔ میاں رضا ربانی نے کہا کمیشن ضرور بنانا چاہیے۔ ابھی کمیشن کی باز گشت آ ہی رہی تھی کہ میاں صاحب آگے بڑھ گئے، کسی اور وادی کی سمت، کسی اور منزل کی جانب۔

میاں صاحب تو آج کل بہت سیماب پا ہو رہے ہیں، مگر ہمیں رک کر جائزہ لینا چاہیے کہ یہ جو نت نئے موضوعات وہ اٹھاتے رہتے ہیں تو کیا یہ ان کے سوچے سمجھے خیالات ہیں، کیا وہ سنجیدہ ہیں، کیا انہیں ان مضامین کے ما لہ و ماعلیہ کا ادراک ہے یا وہ ان بارودی خیالات کے دھماکے فقط دھمکانے کے لئے کرتے ہیں؟ مثلاً، یہ Truth Commission والا معاملہ ہی لے لیجئے۔

دنیا میں ٹرتھ کمیشنز کے قیام کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، بالخصوص بر اعظم افریقہ (یوگنڈا، ہیٹی، روانڈا، چاڈ وغیرہ) اور لاطینی امریکا کے اکثر ممالک (ارجنٹائن، برازیل، چلی، کولمبیا، ایکواڈور، ایل سلوا ڈور، پیرا گوائے، یوراگوائے، پاناما، پیرو، وغیرہ) میں پچھلے چالیس سالوں میں ایسے کئی ٹرتھ کمیشنز قائم کئے گئے اور اپنی جزیات کے اعتبار سے تو یہ کمیشنز ایک دوسرے سے مختلف قرار دئیے جا سکتے ہیں، لیکن ان کے وجود پذیر ہونے کا بنیادی مقصد ایک ہی رہا ہے، یعنی، ان سنگین اجتماعی جرائم کے بارے میں سچ تک رسائی حاصل کی جائے جن کا ارتکاب اس ریاست کے حکمرانوں یا مسلح گروہوں نے کسی مخصوص دور میں اپنے سیاسی اورنظریاتی حریفوں کے خلاف کیا۔ یہ تمام کمیشنز اس وقت بنائے گئے جب ان جرائم کا مرتکب ٹولہ تختِ حکمرانی سے معزول ہو چکا تھے۔ ان ٹرتھ کمیشنز نے سچ تک رسائی کے بعد اپنے اپنے اختیارات کے مطابق مجرموں سے نپٹا، کہیں پھانسیاں ہوئیں، مثلاً ارجنٹائن، اور کہیں معافی تلافی، جیسے سائوتھ افریقہ۔

سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے سے ہمارا کیا لینا دینا۔ کمیشن بنانے کے لئے جو حالات اور شرائط مخصوص ہیں وہ تو ہمارے یہاں موجود ہی نہیں، کیا ہمارے ہاں Apartheid ختم ہوئی ہے؟ کمیشن کس نے بنانا ہے، اسکے ممبرز کون ہوں گے، اس کا مینڈیٹ کیا ہو گا؟ ان سب سوالوں کا کوئی سیدھا جواب نہیں ہے، اور میاں صاحب یقیناً اس حقیقت کا کما حقہ ادراک رکھتے ہیں۔ تو پھر ایسی نا قابلِ عمل بلکہ بے سروپا تجویز پیش کرنے کی ضرورت کیا تھی؟کیا آپ کسی دیو مالائی مہا یدھ کا تذکرہ کر کے ہماری توجہ نیب میں چلنے والے مقدمہ سے ہٹانا چاہتے ہیں؟

سچی بات تو یہ ہے کہ اہل وطن کو ایسے کسی مجوزہ کمیشن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔کمیشنز تو اس ملک میں پہلے بھی کئی بار بن چکے ہیں۔کیا نتیجہ نکلا ان کمیشنز کا؟ کچھ حاصل وصول؟ اکثر کمیشنزکی رپورٹس کی زیارت سے یہ قوم آج تک محروم ہے۔ اس دوران میاں صاحب کی بھی حکومتیں آئیں لیکن انہوں نے کبھی کسی کمیشن رپورٹ کوعوام کے روبرو رکھنا ضروری نہیں سمجھا، آخر کیوں؟ لہٰذا عوام اگر لفظ ’کمیشن‘ سے چڑتے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں اور جب تک یہ پچھلی رپورٹیں مشتہر نہیں کی جاتیں مہربانی فرما کر قوم سے’ کمیشن کمیشن‘ نہ کھیلا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).