کفر اور تاریخی آثار کے بیچ جھولتا ایمان


احمد ی، احمدی، احمدی اور ان کے حقوق ایک شور برپا ہوا ہے۔ مان لیا کہ احمدی کافر ہیں۔ اگر کافر ہیں تو اُن کے ساتھ عین اسلامی قوانین کے تحت برتاﺅ کیوں نہیں ہو رہا۔ کیا وہ ٹیکس نہیں دیتے ؟ کیا وہ پاکستانی قوانین کی پاسداری نہیں کرتے؟ کیا وہ ہمارے لئے خطرہ ہیں؟ کیا اُن کو اقلیت میں شمار کرتے ہوئے اُن کی حفاظت کی جا رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب آج نصف پاکستان کو چاہیے۔ اگر قادیانی ملکی راز باہر بھیج رہے ہیں تو عوام کو بتایا جائے کہ وہ کون سے ایسے راز ہیں جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں وہ راز ظاہر ہوئے تو کیسے؟

میں اس طویل بحث کو اس وقت نہیں چھیڑنا چاہتی کیونکہ میں بھی آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بنیادی مسئلہ ہے کیا۔ یہ خالص مذہبی اور فرقہ واریت پر مبنی سیاسی مسئلہ ہے۔ مگر پاکستان میں پانی کے سکٹرے ہوئے ذخائر سے بڑھ کر نہیں۔ بھوک سے بڑھ کر نہیں۔ کم از کم میں پانی اور روٹی بغیر کسی بیرونی حملے سے نہیں نبرد آزما ہو سکتی۔ ہاں جن کے ایمان مضبوط ہیں وہ شائد یہ کر بھی جائیں۔

بات ہو رہی پختہ ایمان والوں کی تو ایک داستان اس بندی سے سن لیں۔ ایک بزرگ صوفی شاعر سلطان باہو رحمتہ اللہ نے کیا خوب فرمایا کہ۔

الف اللہ چنبے دی بوٹی

مرشد من وچ لائی ہو

چنبے کی بوٹی ہمارے بزرگان دین کے مزارات پر کیسے مہک رہی ہے اس کا احوال پڑھ لیں اور فیصلہ کریں کہ ایمان کتنا، کہاں، کب، کیسے اور کس کا خطرے میں ہے وہ بزرگ ہستیاں فیض بانٹ بانٹ کر محبتوں کے درس دے دے کر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں اور پیچھے اُن کے اہل و عیال نے اس فیض باری کا سلسلہ شروع رکھا۔ جس کی حالت اب کچھ یوں ہے کہ پیری کی گدی نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی انہیں کے خاندانوں میں گھوم رہی ہے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ گدی نشین علم کتنا اور کس شے کے بارے میں رکھتے ہیں۔ وہ دین کے بارے میں جانتے کتنا ہیں۔ احوال تو کچھ امیر معاویہ اور یزید جیسا معلوم پڑتا ہے۔ حکمت اور علم کی بڑھوتری اور مفتیان کو اہل مسند نہیں بلکہ وراثتی جانشینی باپ سے بیٹے کو منتقل ہو رہی ہے اس کی زندہ مثال شاہ شمس تبریز کا مزار ہے۔

سالوں پہلے کی بات ہے کہ ایک باپ کے دوبیٹے تھے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دوسرے کو تعلیم سے کوئی لگاﺅ نہیں۔ دربار سے ملحقہ محکمہ اوقاف والوں نے آمدنی ضبط کر لی اور صرف چڑھاوے پر گزر کرنا پڑی تو اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹا چھوٹے بھائی کو گدی سونپ گیا اور خود اپنی سائنسی تعلیم سے آمدنی کا وسیلہ کرنے لگا چھوٹے بھائی کی وفات کے بعد دربار کا نظام خلیفے دیکھتے تھے۔ دو چھوٹے بچے تھے اُن میں سے ایک کا انتقال ہو گیا۔ اور ایک ذہنی معذور ہے مگر تعویز گنڈے کے بعد چڑھاوے کا سلسلہ جاری ہے کیا شاہ شمس تبریز یہ کام سکھا کر گئے تھے۔ ویسے دربار کے گنبد کی حالت بھی اب خاصی خستہ ہے کیونکہ وہاں صرف مریدین سے محرم پر عقیدت کے نام صرف چڑھاوے وصول کئے جاتے ہیں۔ بندی کی مرحوم عزیزہ اس معذور بچے کے ماں تھیں اس لئے حال معلوم ہے۔

ایک اور دربار عالیہ کاحال سنیں۔ اُس دربار کی گدی کیلئے ایک مرحوم اور قدرے عیاش طبع والد کی دو اولادوں میں 10سال سے بھی زیادہ قانونی جنگ رہی۔ ایک بیٹا ڈاکٹر اور باقی دونوں ایچیسن سے تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر بیٹے انتقال ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہوا۔ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا۔ قیاس ہے کہ یہ حادثہ دونوں سوتیلے بھائیوں نے کروایا تھا۔ اب ان میں سے ایک بھائی جو مریدین سے ملتے وقت ایک ولی اللہ کا روپ دھار کرفقیری لباس اور پگڑی باندھ کر نذرانے وصول کرتا ہے اس کے اگر دئیے تعویز کو کھول کر پڑھو تو مادھوری کی فلم کا گانا یاد آجاتا ہے اور اسی خاندان کا بچہ بچہ خود کہتا ہے کہ ہم تو ایک دو تین چار پانچ چھ سات لکھ کر دیتے ہیں۔ مرید مارے عقیدت کے ان تعویزوں کو کھولتے بھی نہیں نذرانے کا ایک سیزن ہوتا ہے۔ سال میں دو بار عرس اور محرم پر مزار پر موجود تالاب سونے، زیورات اورپانچ،پانچ ہزار کے نوٹوں سے بھر جاتا ہے۔ دربار کی شان و شوکت بلند میناروں اور گنبد کے ذریعے دور سے نظر آتی ہے

باقی سال بھی چڑھاوے آتے رہتے ہیں جن کی مدد سے اسی خاندان کے اصحاب الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور جیت بھی جاتے ہیں۔ زیادہ تر ان کی رہائش لاہور /اسلام آباد ہوتی ہے۔ ویسے وہ بزرگان دین کوئی جائیداد چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے تھے پھر یہ زرعی زمین کہاں سے آگئی جو سمندری کے علاقے اور جھنگ کے نواح میں گدی نشینوں کی ملکیت ہے۔ یہ کچھ چرچ کے پوپ اور زمینوں کی ملکیت جیسا نہیں لگ رہا آپ کو۔ حضرات یہ کافروں کی حرکات سے مماثلت رکھتا ہے اُن زمینوں جائیدادوں کو اہل ایمان کب بارودی سرنگوں سے اڑا رہے ہیں۔ اب کی بار مجھے بھی ساتھ دینا ہے۔ جنت کچھ تو پکی ہو جائے۔ یہ دربار بھی تو ہذا من فضلِ ربی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سومنات کا مندر دیوداسیوں کو چھڑانے کیلئے توڑا گیا تھا تو اب جو لڑکیاں اس دربار پر چڑھاوا کے طور پر چڑہائی جاتی ہیں ان کا کیا حشر ہوتا ہے آپ خود سوچیں جو لڑکے دولے شا ہ کے چوہے بنائے جاتے ہیں اُن کا کیا بنتا ہے۔ کیا یہ عین مشرکانہ حرکات نہیں تو پھر یہ کیا ہو رہا ہے۔ بھائی ان سومنات کے مندروں کو کون توڑے گا۔ ہاں ان درباروں پر گنبد بھی ہیں اور وہ دربار ہیں، مساجد تو نہیں۔ ان کے طرز تعمیر پر توجہ کیوں نہیں گئی۔ بہاﺅالدین زکریا ملتانی کے دربار کے گنبد کی تعمیر میرے اس فقیر اور درویش نے تو نہیں کی تھی۔ اُن کی قبر کی طر ف پیٹھ کرکے واپسی کی بھی اجازت نہیں اور چوکھٹ چومتے میں نے ہزاروں کو دیکھا ہے۔ کیا اس چوکھٹ کے پتھر جنت سے آتے تھے۔؟

 72 فرقے اور سب کے سب اسلامی نقطہ سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والے ایک نقطے پر تو ایک ہوئے اور اقبال کا مصرعہ عزت پا گیا۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

جی ہاں! یہ نقطہ احمدیوں سے نفرت کا نقطہ ہے مگر جو سہارا  TMA کا انہوں نے لیا ہے اس سے خود اپنا ہی موقف کمزور کر بیٹھے ہیں جو پہلے ہی دیمک زدہ ہے یہ ریاست پاکستان کے کس قانون میں آتا ہے کہ میں روزہِ رسول پر جاﺅں تو پیٹھ کر سکتی ہوں اُس جانب جہاں آقا ئے دوجہان کی آخری آرام گاہ ہے مگر قبور بزرگان دین برصغیر کی طرف نہیں ورنہ میں بے ادب کہلاﺅں گی۔

پیراکبر شاہ کا دربار ملتان میں ہے وہاں خواتین مراد پانے کیلئے نوراتا دینے آتی ہیں۔ یہ ہندوانہ رسم نوراتری جیسا ہوتا ہے دئیے جلتے ہیں قوالیاں ہوتی ہیں جن میں صرف اس بزرگ کے حیلے وسیلے سے دعائیں ہوتی ہیں مجال ہے جو ایک حرف بھی اسلام کی تعریف میں بیان ہو۔ رنگ رنگ کے زرق برق لباس پہنے خواتین و مرد بہترین طعام اڑاتے ہیں اور گدی نشین کی چاندی ہی چاندی۔ وہ خواتین جو یہ رسم ادا کرنے آتی ہیں یا تو خود کو پنکھا جھلتی رہیں ہیں یا اُن بزرگ کی قبر کو۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلمین پاکستان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ کوئی جبر نہیں۔

سنت پر جھگڑا ہے، خلفا پر جھگڑا،اسلاف پر جھگڑا ہے ایک فرقے کا اعتقاد دوسرے سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ تو مسجدیں الگ، دربار الگ، جھنڈے الگ، دستار کے رنگ الگ، مگر قرآن کے ٹکڑے تم سے نہ ہو پائیں گے اسی کوشش نے تم کو زوال بخشا ہے دنیا میں۔ پوری ملت بھکاری بن چکی ہے۔ دہشت گرد بن چکی ہے۔ رسوا ترین قوم ہے پاکستانی قوم۔

قائد کی باتیں تو سمجھ میں نہیں آئیں گی اس لئے صر ف قرآن کی چند آیات حوالہ کے طور پر پیش کر رہی ہوں۔ اور قرآن میں کوئی شک نہیں اگر احمدی کو کافر سیاسی مجبوریوں کی بنا پر بنا ہی ڈالا گیا ہے تو یہ آیت راہنمائی کے لیے کافی ہے۔

آیت نمبر94 5:”جن کے ساتھ تم نے معاہدے کر لئے ہیں وہ تمہارے حملوں سے محفوظ ہیں۔“

آیت نمبر5:95”جو معاہدے تم نے اُن کے ساتھ کر چکے اُن کو آخر تاریخ تک پورا کرنا، اللہ پسند کرتا ہے۔ “

آیت نمبر2:192”اگر وہ رک جائیں تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ “

آیت نمبر8:61”اب اگر وہ امن کی طرف آتے ہیں تو تم بھی امن قائم کرو اور اپنا یقین اللہ کی طرف باندھو، اللہ سب سنتا اور جانتا ہے۔ “

آیت نمبر5:48”ہم نے تم میں سے ہر ایک کیلئے ایک دستور اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ اگر خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی شریعت پر کر دیتا مگر جو حکم اس نے تم کو دئیے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے سو نیک کاموں میں جلدی کرو تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر جن باتوں میں تم کو اختلاف تھا وہ تم کو بتا دے گا۔ “

اللہ بڑے رحم والا ہے اور رحم کو پسند کرتا ہے یاد رکھیئے وہ بڑا روادار اور حیا ءوالا ہے وہ بہترین منصف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).