دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا ضروری ہے 


1988 کی ایک شام تھی پیپلز پارٹی کا انتخابی جلسہ تھا میں ایک جوان اور پر جوش سیاسی کارکن، بطور امیدوار صوبائی اسمبلی، سردار عارف نکئی کا مقابلہ کر رہا تھا۔ جوش خطابت میں مخالفین کو غدار قرار دے دیا۔ صدارت ملک معراج خالد صاحب فرما رہے تھے۔ فوری طور پر مائیک سنبھالا اور فرمایا سیاسی مخالف کو غدار قرار دے دینا غیر اخلاقی اور سیاسیات کے مروجہ اصولوں اور rules of game کی صریح خلاف ورزی ہے۔ میں اس نوجوان کے موءقف کی تردید کرتا ہوں اور مائیک واپس مجھے سونپ دیا۔ تقریر کیا کرنی تھی آئیں بائیں شائیں کے بعد تقریر ادھوری چھوڑ کر بیٹھ گیا۔ صدارتی خطاب میں بھی مرحوم نے زیادہ تر وقت اسی نکتے کی وضاحت میں صرف کیا کہ غداری کے تمغے مت بانٹو یہ رویہ نہ صرف غلط ہے بلکہ سیاسی اقدار کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتاہے۔

وقتی طور پر لگا کہ ملک صاحب نے تو مزہ ہی کرکرا کر دیا ہے۔ سیاسی جلسےمیں میرا بھڑکایا ہوا الاوا ہی بجھا دیا ہے۔ پر جوش مجمع بھی بجھابجھا سا منتشر ہو نے لگا۔ آج سوچتا ہوں کہ کیا نایاب  لوگ تھے اور کیا کمال ان کی سیاسی اپروچ تھی۔ اب جب کہ خود سردوگرم چشیدہ ہو چکا ہوں۔ جوانی کی جولانیاں رخصت ہوئیں اور دلیل کی قوت نے جذبات کے سرکش گھوڑے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ غداروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں کوئی غدار وطن کا تمغہ سینے پہ سجا ئے پھرتا ہے۔ کوئی دین کا غدار قرار پایا ہے۔ کوئی ہلکے درجے کا غدار ہے تو صوبے کے مفادات سے غداری کا مرتکب کہا گیا۔ مادری ذبان سے غداری کا فارمولا نو مولود ہے آیئن کے غدار تو گلی گلی کوچہ کوچہ میسر ہیں۔ کبھی سابق صدر غدار ہے تو جواب آں غزل کے طور پر سابق وزیراعظم غدار قرار دے دیا گیا ہے۔

حال ہی میں بغیر کسی عدالتی فیصلے کے ایک سابق جرنیل بھی غدار قرار پایا ہے اور بدھائیاں بانٹی جا رھی ہیں۔ جوگندر ناتھ منڈل، حسین شہید سہروردی، سر ظفراللہ خان، شیخ  مجیب الرحمان، ”سابق“ شیر بنگال مولوی فضل الحق۔ باچا خان۔ ولی خان۔ جی ایم سید۔ فیض احمد فیض، میجر اسحاق مرحوم، اکبر بگٹی  اور نہ جانے کون کون ہمارے ہاتھوں دشنہ و الزام کی سولی پہ چڑھا دیا گیا۔ الزام و دشنام کی آندھی چلتی ہے تو کتنے نیک نام آشیانے تنکا تنکا بکھیر دیتی ہے کل کے منظور نظر آج کے معتوب قرار دے دیے جاتے ہیں۔

دلیل، ابلاغ اور مکالمے کا در بند کرنے والی قوتیں طاقت کے سرچشموں پر قابض ہوں تو صفائی اور بے گناہی کیسی؟ بھٹو شہید  کی پھانسی پر پچھتانے والے جج انوارالحق کا کتھارسس، اور اعتراف نا انصافی  کسی کام آیا؟ نہیں۔ اس لئے اب یہ غدار غدار کی لکن میٹی  ختم ہونی چاہیے۔ حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بہت تقسیم ہو چکے۔ تختہ دارپر کبھی پھول نہیں اگا کرتے۔ بقول احمد ندیم قاسمی صاحب،

ہم اس قبیلہء وحشی کے دیوتا ہیں کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
انا پرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں۔

شاید میری خام خیالی ہو لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ایک
Truth & reconciliation commission
واقعی قائم کیا جائے اور اس کی سفارشات پر بے رحمی سے عمل بھی کیا جائے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).