معصوم مخلوق سے شہباز شریف کے شکریہ تک



صحافی اس دنیا کی سب سے ’معصوم مخلوق ‘ہیں۔ لوگوں کے خیال میں صحافیوں کی زندگی بہت آسان اور زندگی سے بھر پور ہوتی ہے۔ صحافت کے شعبے میں نوکری کرنا آسان نہیں ہے۔ اس نوکری کے دوران ہمیں بہت باتیں بھی سننی پڑتی ہیں جن کا ہم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی بیچارا صحافی کسی سیاست دان کے کام کی تعریف کر دے دو پھر اس پر ’لفافہ صحافی‘ کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی الزامات ہیں جو ایک صحافی اپنے سر پر لے کر چند ہزار کی خاطر نوکری کر رہا ہوتا ہے۔ میرے خیال سے اس دنیا میں سب سے عظیم شخص وہ ہے جو کسی صحافی کا خیال کرتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں صحافت کا شعبہ بہت بد نام ہے۔ لیکن یہاں پر میں وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کی تعریف ضرور کرنا چاہوں گی کہ جن کی وجہ سے پاکستان کے 60 صحافیوں نے پانچ دن تمام پریشانیوں سے بالاتر ہو کر گزارے۔

پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر ملک محمد سلمان کو اس بات کی داد دوں گی کہ انہوں نے ایک مشکل کام کو ممکن بنا دیا۔ سخت گرمی میں محمد سلمان نے پاکستان بھر کے 60 سے زائد صحافیوں کو ایک ٹھنڈے مقام پر لے کر جانے کا ارادہ بنایا تو مجھے یہ کام مشکل ہی لگا۔ تاہم محمد سلمان نے یہ کام اپنی محنت اور لگن سے پورا کر کے دکھایا۔ اورانہوں نے صحافیوں کے ’لاہور سے وادی کیلاش ‘ تک کے دورے کو کامیاب بنایا ۔ صحافیوں کا یہ ٹولہ پہلے لاہور میں AFOSH کلب میں اکھٹا ہوا جہاں ٹور پر جانے والے اس وفد کے لیے عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ معصوم مخلوق کے لیے ایک خوبصورت تقریب کے انعقاد پر اس کلب کے روح رواں قیصر رفیق اور ایڈمنسٹر کرنل ساجد شکریے کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد صحافیوں کا یہ وفد اسلام آباد روانہ ہوا۔ جہاں پاکستان ٹوارزم ڈپارٹمنٹ کی طرف سے وفد کا استقبال کیا گیا ۔ پاکستان ٹورازم ڈپارٹمنٹ کے تعاون کا بھرپور شکریہ کہ جنھوں نے اس ’معصوم مخلوق‘ کے لیے قیام و طعام کا بندوبست کیا۔ اس کے بعد ’معصوم مخلوق ‘ کا یہ قافلہ چترال کی طرف روانہ ہوا۔ چترال کے لوگوں کی سادگی اور با اخلاق گفتگو نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ یہاں ڈی سی چترال سے بھی ملاقات ہوئی۔ ضلع چترال کا رقبہ مجموعی طور پر آٹھ سو پچا کلومیٹر پر پھیلاہوا ہے۔ لیکن رقبے کے اعتبار سے چترال کی آبادی کم ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہاں پر آبادی کو ہی وسائل کی تقسیم کا معیار بنا لیا گیا ہے۔ چترال کسی جنت سے کم نہیں ۔ لیکن 2015 میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے چترال کی سڑک خستہ حالی کا شکار ہے۔ چترال کے کئی لوگوں کے چہروں پر مجھے غربت کے آثار واضح دکھائی دئیے۔

چترال سے کیلاش تک کا سفر ٹوٹی پھوٹی سڑک کی وجہ سے بہت دشوار تھا۔ کیلاش میں ہونے والے چلم جوشی فیسٹول میں ہر سال کئی ممالک سے سیاح خاص طور پر شرکت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ لیکن غیر ملکی سیاحوں کو یہاں پر جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ بطور پاکستانی میرے لیے باعث شرم تھا۔ کہ غیر ملکی سیاح ہمارے ملک سے پاکستان کی کیسی تصویر لے کر جارہے ہیں۔ چترا ل سے کیلاش تک کی سڑک کو تعمیر کرنے اور اس راستے پر بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے تا کہ یہاں آنے والے سیاح کسی دشواری کے بغیر کیلاش تک کے سفر اور کیلاش کے کلچر کو انجوائے کر سکیں۔ جس دن ہم کیلاش پہنچے وہاں موسم بہت خراب تھا۔ جس کی وجہ سے کچی گلیاں کیچڑ کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ اور بچارے انگریز بھی ہماری طرح اس کیچڑ میں ہی چلم جوشی فیسٹول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لیکن ایک ایسی وادی جس میں ہر سال کئی سیاح سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر دلی دکھ ہوا۔ اور اس جگہ کو سوئیزرلینڈ کا نام دینے والوں پر شدید تپ بھی چڑھی۔ اگر اس وادی پر تھوڑی سی بھی توجہ دی جائے۔ تو یہ یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو گی۔ اور یقینا اس سے یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ وادی کیلاش میں کیلاشی قبیلے کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے کیلاشی زبان و ثقافت کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ حکومت کو کیلاش کی زبان و ثقافت کو محفوظ بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیے۔ تا کہ یہ خوبصورت کلچر ایسے ہی اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم رہے۔

وادی کیلاش کا یہ ٹور ہم صحافیوں کے لیے ایک مطالعاتی دورہ ثابت ہوا۔ اس دوسرے کے دوران ہمیں ضلع چترال اور کیلاش کے بنیادی مسائل سے متعلق علم ہوا۔ اور پاکستان میں موجود اس خوبصورت وادی کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ اور ہمیں یہاں کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کرنے کا بھی موقع ملا۔ کئی ایسے ممالک ہیں جو کہ مکمل طور پر سیاحت پر انحصار کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو بھی سیاحت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم ایم ڈی ٹورازم چوہدری عبد الغفور سے ملاقات کے بعد کچھ امید قائم ہوئی کہ پاکستان مستقبل میں اس شعبے میں ضرور ترقی کرے گا۔ چوہدری عبد الغور سیاحت کے فروغ کے لیے جو منصوبے پیش کر رہے تھے اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو نہ صرف پاکستان میں آنے والے بین الاقوامی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا بلکہ یہا ں کے لوگوں کو روزگار بھی مہیا آئے گا۔ صحافیوں کے اس ٹور کو کامیاب بنانے میں سی ایم پنجاب شہباز شریف کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنھوں نے اس ٹور کے لیے مکمل ٹرانسپورٹ فراہم کی۔ اس تعاون کے بغیر اس ٹو ر کو کامیاب بنانا آسان نہیں تھا۔ شہباز شریف کی وجہ سے معصوم مخلوق کی مشکل زندگی میں سکون کے کچھ ایسے لمحات میسر آئے جس کو معصوم مخلوق نے نہ صرف انجوائے کیا بلکہ اس سے بہت کچھ سیکھا جو صحافی کیرئیر میں ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ جس کے لیے یہ معصوم مخلوق شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).