ایران جوہری ڈیل، امریکہ اور یورپ


صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران جن انتہا پسند پالیسیوں پر عملدرآمد کا ذکر کرتے تھے انہوں نے ان پر اپنے دور صدارت میں عمل بھی کر ڈالا۔ صدر اوباما کی ایران کے ساتھ جوہری ڈیل جس میں تنہا امریکہ ہی ایک فریق نہ تھا اس میں صرف تنہا امریکہ باہر نکل آیا۔ اور ایران پر دوبارہ سے پابندی عائد کرنے کی جانب چل پڑا۔ 2006ء میں امریکہ نے ایران پر پابندی عائد کی تھی اور اس کی بنیادی وجہ یہ بیان کی تھی کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی جانب گامزن ہے۔ حالانکہ ایران کا سرکاری مﺅقف یہ رہا ہے کہ ہم توانائی ضروریات پوری کرنے کی خاطر نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہم ایٹمی ہتھیار بنانا نہیں چاہتے۔ بہرحال 2015ء میں ایران، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین، جرمنی اور یورپی یونین کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن یا عرف عام میں ایران جوہری معاہدہ کہا جاتا ہے۔ وقوع پذیر ہوا۔

ٹرمپ اس وقت سے اس معاہدے کے خلاف بیان بازی شروع کر چکے تھے ۔ ان کے متعلق یہ بہت مضبوط خیال ہے کہ جو انہوں نے بعد میں درست بھی ثابت کیا کہ وہ اسرائیل کو درپیش ہر خطرے کو سب سے پہلے غیر مﺅثر کر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایران جوہری معاہدے سے نکلنے کی بھی واحد وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے باوجود اسرائیل ایران سے براہ راست خطرات محسوس کر رہا ہے۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے ٹرمپ کے اس اقدام کے بعد ہیرٹیج فاﺅنڈیشن میں اس حوالے سے تفصیلی خطاب کیا اور معاہدے سے نکلنے کی وجوہات پر اپنا مﺅقف پیش کیا۔ اگر ہم ان کی تقریر کا خلاصہ بیان کریں تو صرف یہ ہو گا کہ اسرائیل کو لاحق خطرات اس معاہدے کے سبب سے کم نہیں ہوئے بلکہ ایران نے زیادہ جارحانہ طور پر مشرق وسطیٰ میں قدم بڑھانا شروع کر دیئے ہیں۔ اور اس کا مقصد اسرائیل کو نقصان پہنچانا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران اس معاہدے کی آڑ میں سکون سے ایران سے لیکر بحیرہ روم تک ایک ایسی راہداری قائم کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ اسرائیل کے دروازے تک پہنچ کر ان عناصر کی عسکری اور مالی مدد کرے جو اسرائیل سے براہ راست لڑ رہے ہیں۔ ایران نے اسرائیل میں ڈرون بھیجا اور گولان کی پہاڑیوں سے راکٹ بھی اسرائیل پر مارے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے 30 اپریل کو دعویٰ کیا کہ ہم نے ایران میں بہت بڑا انٹیلی جنس آپریشن کیا ہے جس سے ایران کے ایٹمی پروگرام “آماد” کی ایک لاکھ دستاویزات چرا لی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کے ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ مہابادی اور ان کی ٹیم ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لئے کام کر رہی ہے۔ حالانکہ آئی اے ای اے نے 2003ء میں ہی یہ اعتراف کر لیا تھا کہ 1989ء سے جاری آماد پروگرام ایران نے بند کر دیا ہے۔ مائیک پومپیو نے اسرائیل کے اس دعویٰ کا بھی تذکرہ کیا۔ ایران جوہری معاہدے کو غلط قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں ایران کے بیلسٹک اور کروز میزائل پروگرام کو روکنے کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایران 2015ء کے معاہدے کے معاشی ثمرات کی وجہ سے اپنے پاسداران انقلاب، لبنان کے حزب اللہ، فلسطین کی حماس، یمن کے حوسی اور افغانستان کے طالبان کی کھلم کھلا مدد کر رہا ہے۔ پاکستان کے لئے دلچسپ امر ہو گا کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ افغان طالبان کو فنڈ اور اسلحہ ایران کی جانب سے مل رہا ہے۔ جبکہ القاعدہ کی اعلیٰ قیادت تہران میں رہائش پذیر ہے۔ اور ان تمام اقدامات کی منظوری ایران کے رہبر آیت اللہ خامنائی اور جنرل قاسم سلیمانی کر رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ کے خیال میں صدر روحانی اور وزیر خارجہ جواد زری اس حکمت عملی کے ساتھ نہیں ۔ حالانکہ دیگر ذرائع ایسے امریکی دعووں کی تصدیق نہیں کرتے۔ کہ اس معاملے پر ایران کی قیادت میں اختلافات ہوں۔

امریکہ کے چار شہری بھی گزشتہ 11 برس سے ایران میں جاسوسی کے سبب سے قید ہے۔ امریکہ یہ تصور کرتا تھا کہ ایران خیر سگالی کے طور پر ان باشندوں کو رہا کر دے گا۔ مگر ایران نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اب امریکہ یہ حکمت عملی اختیار کر رہا ہے کہ سب سے پہلے ایران پر معاشی دباﺅ بڑھایا جائے تا کہ وہاں پر معاشی دباﺅ کے سبب سے عوامی بے چینی کی کیفیت پیدا کی جا سکے۔ لیکن امریکہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ ایران ریڈ سی میں بین الاقوامی تجارت کو کسی رد عمل میں نقصان نہ پہنچا دے۔ کیونکہ ایران اس کی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر معاشی دباﺅ کے اثرات کے سبب سے ایران پیچھے نہ ہٹا تو ایسی صورت میں طاقت کا استعمال بھی امریکیوں کے پاس زیر غور ہے مگر اس کے نتائج بہت ہولناک ہو سکتے ہیں۔ جو امریکی سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے فیصلے پر ایران کا رد عمل بہت سخت سامنے آیا۔ صدر ٹرمپ نے ایران کو دوبارہ مذاکرات کی پیشکش کی مگر ایران نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ ایک حکومت سے معاہدہ کرنے کی اگر کوئی حیثیت نہیں تو دوسرے سے کیا ہو گا۔

یورپ کے لیڈروں بالخصوص فرانس اور جرمنی نے کوشش کی ہے کہ ایران اس ڈیل پر قائم رہے مگر ایران کی طرف سے آوازیں آ رہی ہیں کہ یہ ڈیل تو کجا ہم تو این پی ٹی سے بھی نکل سکتے ہیں۔ ایران نے یورپ کے لیڈروں کی اس خواہش کے جواب میں کہ ایران اس معاہدے سے وابستہ رہے پوچھا ہے کہ ایران کو یورپ کیا دے سکتا ہے۔ کیا یورپ پرائیویٹ سرمایہ کاری کے لئے نئے راستے نکال سکتا ہے۔ یورپ میں بھی ان تجاویز کا کام ہو رہا ہے کہ انٹر پرائزز اور یورپی بزنس پر ایران پر عائد پابندیاں اثر انداز نہ ہو سکیں۔ تیل اور گیس کی مد میں جو رقوم ایران کو ملیں وہ امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آ سکیں۔ جرمنی اور فرانس کے سربراہان نے ڈیل کے خاتمے سے قبل وائیٹ ہاﺅس کا دورہ کیا تھا تا کہ ٹرمپ کو اس سے باز رکھ سکے۔ پھر برطانیہ کی وزیر اعظم سمیت متعدد یورپی لیڈروں سے اس موضوع پر بات بھی کی تھی۔ یورپی یونین پابندیوں سے قبل ایران کی سب سے بڑی ٹریڈ پارٹنر تھی اب یہ حیثیت چین کو حاصل ہے۔ یورپی یونین دوبارہ یہ حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جنوری سے اکتوبر 2017ء تک فرانس کی ٹریڈ ایران سے 118 فیصد بڑھی فرانس کی ٹوٹل کمپنی نے دنیا کی سب سے بڑی گیس فیلڈ جنوبی پارس کا ٹھیکہ لیا جبکہ ایئر بس نے 100 جہازوں کا 18 ارب ڈالر کا آرڈر لیا۔ رینالٹ اور پیجو کار کی کمپنیاں بھی ایران کو بڑی مارکیٹ سمجھتی ہیں۔ جرمنی کے تجارتی مفادات یہ ہیں کہ 1975ء میں جرمنی ایران تجارت 4.5 ارب ڈالر تھی جو 2013ء میں صرف 2 ارب ڈالر رہ گئی۔ یورپی ممالک اس نقصان سے باہر آنا چاہتے ہیں مگر امریکہ کی گرفت کے سبب سے باہر آپا نہیں رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ایران کو مزید اشتعال دلانے کے امریکہ فیصلے کے آگے بیٹھ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).