لبرل و مذہبی حلقوں میں محاذ آرائی کیوں؟


\"Obaidullahہم سب، پر آجکل رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ یا دوسرے لفظوں میں مذہبیوں اور لبرل حضرات کے درمیان گرما گرم بحث چل رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ محاذ آرائی کیوں ؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دونوں نظریات مکمل طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ اگر تو ایسا ہے تو محاذ آرائی جائز ہوسکتی ہے۔ مگر اگر زیادہ تر نقاط مشترک ہوں اس کے باوجود محاذ آرائی کرنا تو تعصب کی نشانی معلوم ہوتی ہے۔ اس عاجز کی رائے میں اس معاملے میں بھی محاذ آرائی مناسب نہیں ہے۔ اور اپنے تئیں دائیں بازو کے مجاہد قرار دینے والے لکھاریوں اور لبرل احباب سے ایک گزارش یہ بھی ہے کہ کسی بھی معاملے میں تعصب یا بے جا عقیدت جسے مذہبی اصطلاح میں غلو بھی کہا جاتا ہے، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اور جب محاذ قائم کر لئے جائیں تو نادانستہ طور پر ترجیح محاذ کی حفاظت یا جیت ہو جایا کرتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ  دانائی اور حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ اسے جہاں سے یہ ملے وہ اسے قبول کرلیتا ہے۔ اس عاجز کی دانست میں آنحضرتؐ نے اس پر حکمت کلام کے ذریعے ہر قسم کی نظریاتی محاذ آرائی کی حوصلہ شکنی کر چھوڑی ہے۔ ویسے بھی نظریاتی محاذ آرائی میں اگر بنیاد مذہب بن جائے تو اس معاملے میں محاذ آرائی کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ مذہب کی تشریح پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی۔ ہر کسی کو حق ہے اس کی اپنی دانست کے مطابق شرح کرے یا کسی مسلک کی شرح کی پیروی کرے۔ لا اکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کی قرآنی نصوص میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔ پھر قرآن میں اللہ تعالیٰ جابجا فرماتا  ہے، \”پس نصیحت کر تیرا کام بس نصیحت کر دینا ہی ہے۔ تو ان پر کوئی داروغہ تو نہیں ہے۔\”

لیکن جب محاذ آرائی قائم کرلی جائے تو اس سے ایک نتیجہ جو دائیں بازو کہلانے والوں کے نزدیک ہوسکتا ہے کہ دوسرے محاذ پر گویا تمام لادین اور مذہب کے مخالفین ہی موجود ہیں ۔ جبکہ اس عاجز کی رائے میں دوسری طرف لبرل اور سیکولرازم کے حامی طبقے میں ایسے افراد بھی ہیں جو خود اپنی ذات میں مذہبی اور شریعت کے پابند ہیں مگر وہ اسے اپنا اور اپنے خدا کا معاملہ قرار دیتے ہیں مگر اس کے باوجود اپنے مذہب کی ترویج کو محض نصیحت اور ابلاغ کی حد تک دوسروں تک پہنچانے کو ہی جائز سمجھتے ہیں۔ اور با استثناء بعض متعصب افراد کے زیادہ تر سیکولرازم کے حامی احباب مذہب یا مذہب کی تعلیمات کو رد نہیں کرتے بلکہ محض مذہبی آزادیوں اور مساوات کے علمبردار کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک طبقے کی رائے میں مذہب کو ریاست کے کاروبار میں فوقیت ہونی چاہئے جبکہ دوسرے گروہ کی رائے میں ریاست کے معاملات میں مذہب کے نام پر تقسیم جائز نہیں ہے اور مذہب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ تصور کہ سیکولرازم اسلام کے مخالف نظریے کا نام ہے بھی سراسر غلط ہے۔ سوال یہ ہے کہ مذہب کیا تعلیم دیتا ہے؟ اور سیکولرازم کیا ہے؟ یہ ایک بحث ہے۔ اس میں بہت سے نکات دونوں میں مشترک ہوسکتے ہیں اور بہت سے مخالف۔ مگر ایک علمی موضوع پر محاذ آرائی کا تاثر بنا لینا معاملے کو علم کی حد سے نکال کر تعصب کی حدود میں لے جایا کرتا ہے۔

ٹھیک ہے آپ کے نزدیک اگر سیکولرازم غلط ہے تو اسے لادینیت کہہ کر گویا آپ اسے گالی دے رہے ہیں۔ آپ سیکولرازم کے نکات کو مرحلہ وار اٹھایے اور اسے اپنے دلائل کی رو سے غلط ثابت کیجئے۔ لیکن یاد رہے کہ اگر آپ مذہبی ہیں تو آپ کے دلائل قران، حدیث اور سنت کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ نہ کہ لادینیت اور لا مذہبیت کی گردان الاپنی شروع کردی جائے۔ یا یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ٹھیک ہے ضابطہ حیات ہے مگر کیا ایسا کہنے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اور یہ کہ اگر یہ آپ کےلئے ضابطہ حیات ہے تو کیا اسے دوسروں پر جبراً نافذ کرنے کا اختیار بھی آپ کو اسلام دیتا ہے یا نہیں؟ اگر یہ آپ کے لئے ضابطہ حیات ہے لیکن یہ ضابطہ آپ کو یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ دین میں جبر نہیں کرنا۔ اسے داروغہ بن کر دوسروں پر جبراً نافذ نہیں کرنا تو پھر کیا یہی سیکولرازم نہیں؟ جبکہ یہاں یہ مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک مذہبی سیاسی تنظیم کی ایک ذیلی تنظیم جو نوجوانوں پر مشتمل ہے ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑ کر اپنی شرح کے مطابق معاشرے میں شریعت نافذ کرنے کو اسلام قرار دیتی رہی ہے۔ حالانکہ اس کے پاس ایسا کرنے کا کوئی آئینی جواز بھی نہیں تھا۔ سیکولرازم کو لامذہب اور مطعون قرار دینے والا یہی گروہ جب کسی غیر مسلم اکثریت والے ملک میں ہوتا ہے تو اسی سیکولرازم کو حلال اور شریعت کے تحفظ کی ضمانت گردانتا ہے۔ ذرا اپنے ہمسایہ ملک بھارت میں ہی جھانک کر دیکھ لیجئے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ملکی قانون شریعت کے مطابق ہونا چاہئیے تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ کس شریعت کے مطابق؟ شریعت کی تشریح کونسی ہوگی؟ اور اگر کوئی قانون متنازع ہوجائے گا تو اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ درست شریعت کیا ہے؟ کیا سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے گی کہ قرآن یا حدیث کی درست شرح کیا ہے؟ اور اگر سپریم کورٹ کردے اور اسے قانون بنا دیا جائے تو کیا پاکستان کی سپریم کورٹ اسلامی فقہ کا ایک اور ماخذ قرار دی جائے گی؟ اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو سپریم کورٹ اور اسکی آئینی حیثیت کیا رہ جائے گی جو ملک کے کسی قانون کے بارے میں کوئی رائے ہی نہ دے سکے؟ ہمارے یہاں دائیں بازو والے شریعت کا نفاذ اور قرآن سنت کی بالا دستی تو مانگتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے یا سوچنے دیتے کہ اگر یہ ‘‘بالادستی’’ مل گئی تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب مطالبات دراصل سپریم کورٹ اور دیگر آئینی اداروں کو پس پشت ڈال کر ہمارے ملا حضرات کو اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ٹھہرانے کے لئے ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments