جاسوسی ناول نگاری کے تاجدارِ فن مظہر کلیم (ایم اے) جہانِ ادب کو سُونا کر گئے


’’مرنے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں‘‘
26مئی کو آسمان ادب کا یہ درخشاں ستارہ تین نسلوں پر محیط اپنے لاکھوں قارئین کو سوگوار کر کے دورکہیں افق میں ڈوب گیا
میں نے اتنی بڑی تعداد میں ناول اپنی قوت خیال کے زور پر تحریرکئے ہیں کیونکہ جب خیال کو قوت مل جاتی ہے تو جیسے آپ کو پر لگ جاتے ہیں، اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کہاں تک اڑ سکتے ہیں، قوت خیال خدا کی دین ہے، تھوڑی بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی لیکن اس میں مطالعہ لازمی جزو ہے، مطالعہ اور مشاہدہ تخیل کو پر لگا دیتے ہیں، عمیق مطالعے اور تیز مشاہدے میں تخیل بھی شامل ہو جائے تو پھر کوئی ایساتخلیقی شاہکارمنصہ شہود پر جلوہ گر ہو گاجو سب لوگوں کے لئے حیران کن ہو گا۔‘‘

آب ِزر سے لکھے جانے والے یہ الفاظ چھے سو سے زائد عمران سیریز کے ناول اور بچوں کے لئے پانچ ہزار سے زائد چھوٹی کہانیاں لکھ کر ناول نگاری کی دنیامیں افسانوی شہرت رکھنے والے ادیب جناب مظہر کلیم ایم اے کے ہیں، 26مئی کو آسمان ادب کا یہ درخشاں ستارہ تین نسلوں پر محیط اپنے لاکھوں قارئین کو سوگوار کر کے دورکہیں افق میں ڈوب گیا،میرے دوست سید عامر لعل بخاری نے واٹس ایپ پر مظہر کلیم کے اچانک انتقال کی خبربھیجی تو یوں لگا جیسے ہمارا بچپن اور لڑکپن کسی نے چھین لیا ہو اور ہم طلسم ہو شربا کے کسی طلسمی کردار کی طرح یکلخت بوڑھے ہو گئے ہوں،خبر کے ساتھ ان کی ایک تصویر بھی تھی ، جس میں ان کے سر کے بال سفید تھے، داڑھی بے ترتیب تھی ، آنکھیں تھکی تھکی بوجھل تھیں جن کی چمک ماند پڑ چکی تھی، مجھے ان کی سر پر سیاہ بال، باریک ترشی ہوئی مونچھیں اور آنکھوں میں بے پناہ چمک کے ساتھ نیلے رنگ کی وہ تصویر یاد آگئی جو عمران سیریز کے ہر ناول پر چھپتی تھی۔

مظہر کلیم کی وفات دراصل ایک عہد کی موت ہے، عالمی شہرت کی حامل شخصیت جو اپنی ذات میں مکمل ادارہ تھے، پوری دنیا میں اپنے کمال فن سے نہ صرف اپنے خطے بلکہ اپنے ملک کا نام روشن کرنے والے اس عظیم تخلیق کار نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے ایک زمانے کو اپنے سحر میں مبتلا رکھا، ان کی ہر تخلیق جذب واسرار کا مجسمہ ہے جس کی ہر سطر میں منطق ، مشاہدہ ، تحقیق، تفتیش ، تجسس و دیگر ذائقے ملتے ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، جاسوی ناول نگاری میں ان کا منفرد اسلوب ایک ایسی ابدی شہرت کا باعث بنا جس کی ابتدا بھی وہ خود رہے اور انتہا بھی، حیرت ہوتی ہے کہ کیسے وہ اتنے طویل عرصے تک نت نئے موضوعات پر تازہ تحریریں پیش کرتے رہے۔

22 جولائی 1942ء میں ملتان کے ایک پولیس آفیسر حامد یار خان کے ہاں پیدا ہونے والے مظہر کلیم جب تک زندہ رہے بھرپور زندگی جئے،ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ سے حاصل کی، 1957ء میں یہاں سے میٹرک کیااور اس کے ایک سال بعد تک اسی سکول میں پڑھاتے رہے، بعدازاں ایمرسن کالج ملتان سے ایف اے اور بی اے کیا، اس دوران ملتان میں پنجاب یونیورسٹی کا کیمپس شروع ہوا تو اس کے پہلے ہی سیشن میں ایم اے اردو کیا، ایم اے اردو کے بعد مختلف انشورنس کمپنیوں میں کام کرتے رہے، 1965ء میں ان کی زندگی میں دو اہم موڑ آئے ، ایک تو اسی سال ان کی شادی برصغیر کے معروف شاعراور صحافی اسد ملتانی کی صاحبزادی سے ہوئی، دوسرا یہ کہ انہوں نے اپنے ایک پبلشر دوست بی اے جمال کی فرمائش پر اپنی زندگی کا پہلا جاسوسی ناول ’’ماکازونگا‘‘ لکھا، ان کے پہلے ناول نے جہاں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے وہیں مستقبل میں جاسوسی ادب کے ایک بڑے ادیب کی راہ بھی ہموار کر گیا، 1973ء میں آپ بطور زرعی فیچر رائٹرریڈیو پاکستان ملتان سے وابستہ ہوئے، سرائیکی وسیب کے مقبول ترین ثقافتی ریڈیو پروگرام ’’جمہور دی آواز‘‘ کے لئے سرائیکی ڈرامے اور فیچرز لکھے، ان میں ایک ڈرامہ ’’ادھی رات دا سجھ‘‘ بہت مقبول ہوا جو بعد میں ریڈیو بہاول پور سے بھی نشر ہوا، ’’اتم کھیتی‘‘ سے کمپیئرنگ کا آغاز کیا ،کئی عشروں تک ’’جمہور دی آواز‘‘ میں کمپیئرنگ کے فرائض سرانجام دیتے رہے، وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے کئے جانے والے ایک سروے میں بطور براڈکاسٹران کی آواز کو ریڈیو ملتان کی سب سے پسندیدہ آواز قرار دیا گیا، 1976ء میں ملتان کے موقر روزنامہ ’’آفتاب‘‘ میں نیوز ایڈیٹراوربعدازاں میگزین ایڈیٹر کے طور پرصحافت کا شعبہ اپنایا، ’’آفتاب‘‘ میں ان کالم ’’تماشا میرے آگے‘‘ مسلسل تین سال شائع ہوتا رہا،تحقیقی فیچرز، کالم، ایڈیٹوریل، سماجی موضوعات پر مضامین غرض ہر کام میں ہاتھ ڈالا، 1978ء میں وکالت کے شعبے میں باقاعدگی سے قدم رکھااور آخر دم تک اس شعبے سے وابستہ رہے۔

ہمارے معاشرے کا اجتماعی رویہ ہے کہ ہم اپنے زندہ مشاہیر کی قدر نہیں کرتے، اس ملک میں ان گنت لوگ ہیں جنہوں نے اداروں سے بڑھ کر کام کیا لیکن ان کی زندگی میں ان کی قدر نہ کی گئی اور مرنے کے بعد ان کا تخلیقی اثاثہ بھی ضائع ہو گیا، مظہر کلیم کی تمام عمر لکھتے گزر گئی اور پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو کے پڑھنے والے موجود ہیں ، مظہر کلیم کو جانتے ہیں لیکن ملکی سطح پر کسی یونیورسٹی یا ادارے نے ان کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں ان کے قلمی سفر پر تحقیقی کام نہیں کیا، حالانکہ ان کے ناولوں کے بہت سے ممالک میں تراجم ہوئے لیکن اپنے وطن میں قدر نہیں کی گئی ، سرائیکی وسیب کی یونیورسٹیوں نے بھی مظہر کلیم کے مقام کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کے حیرت انگیز تخلیقی سفر پر تحقیقی کام کر سکیں، شہرت اور مقبولیت کے حوالے سے اساطیری حیثیت اختیار کرنے والے مظہر کلیم کو بدلے میں سننے کو وہی کچھ ملا جو ابن صفی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’اردو ادب میں ان کی کوئی حیثیت نہیں‘‘۔

مظہر کلیم کا شمار ان نایاب لوگوں میں کیا جا سکتا ہے جن کو انجیل مقدس میں زمین کا نمک قرار دیا گیا، شاید میری ہم عمر نسل ہی وہ آخری نسل ہے جو دل و جان سے مظہر کلیم کو جانتی ہے اور سچے دل سے مانتی ہے، ریڈیو کے ذریعے بھی اور کتاب کے توسط سے بھی، مظہرکلیم عظیم تھے کیونکہ میری ہم عصر نسل کا نوسٹیلجیا عظیم ہے، تیسری جماعت سے ان کی لکھی طلسماتی کہانیوں اور اور بعدازاں عمران سیریز کے ذریعے ان کے ساتھ ایسا رشتہ استوار ہوا جو ان کے مرنے کے بعد بھی دائم آباد ہے، پاکستان میں تو نہیں شاید ان کی یوٹوپیائی ریاست پاکیشیا میں ان کی وفات پر صدر مملکت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہو، سماج کے لئے ان کی بے پایاں خدمات پر پاکیشیا کا قومی پرچم سرنگوں رہا ہو اور شاید پہلی بار پاکیشیا سیکرٹ سروس کا چیف ایکس ٹو اپنے ممبران کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رویا ہو۔

26 مئی کو ہمارے بچپن کے محبوب مصنف نے اس جہان فانی سے عالم جاودانی کا رخت سفر کیا باندھا کہ آنگلو بانگلو اور چلوسک ملوسک بھی موت کے گھاٹ اتر گئے، چھن چھنگلو بھی نہیں رہا، ٹارزن کو وقت کا اژدہا نگل گیا، خواجہ عمروعیار شہنشاہ افراسیاب کے ہاتھوں آخرکار شکست کھا گیا، دیوہیکل ہرکولیس بھی تاریخ کی کھائیوں میں ڈھے گیا، علی عمران اور اس کی پاکیشیا سیکرٹ سروس کو مظہر کلیم نے عالم سکرات سے نکال کر انہیں نئی زندگی بخشی لیکن 26مئی کو علی عمران فنا کی گھاٹیوں میں اتر گیا، ایکس ٹو کا روپ دھارے طاہر، دانش منزل اور راناہاؤس سب تحلیل ہو گئے، جولیانافٹرواٹر،تنویر، صالحہ، صفدر، کیپٹن شکیل، صدیقی، خاور، ٹائیگر، جوزف، جوانا، سلیمان سب اوجھل ہو گئے، کرنل فریدی، میجر پرمود، سید چراغ شاہ،

سرسلطان، سررحمان اور سوپر فیاض کو بھی کہولت نے آلیا، اب یہ سب کردار محض سرودرفتہ کے یاد باغ میں دائم آباد رہیں گے، کوئی نیا کارنامہ سرانجام دینا اب ان کا مقدر نہیں، سوچتا ہوں کہ عمران سیریز کتنی وسیع القلب تھی جس میں جولیا، جوزف اور جوانا جیسی ’’اقلیت‘‘ بھی نہ صرف برابر کے حقوق رکھتی تھی بلکہ اپنے ملک کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آتی تھی، لیجنڈری مظہر کلیم کے ناولوں میں یہ سب کردار ہمیشہ کی نیند سو گئے کیونکہ مظہر کلیم خود ابدی نیند سو گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).