ایک فلسطینی اور ایک بھارتی فضائی ہیروئن


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

آج یاد کرتے ہیں ایک ایسی فلسطینی لڑکی کو جو تئیس سال کی عمر میں ایک ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے والی پہلی عورت تھی۔ اور ایک دوسری تئیس سالہ بھارتی لڑکی کو جو کہ ایک فلسطینی گروپ کی جانب سے ایک ہائی جیک کیے گئے جہاز میں مسافروں کو بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کر گئی۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایک نرم و نازک اور مہین سی فلسطینی لڑکی نے ویسی ہی شہرت پائی تھی جیسی چے گویرا کو نصیب ہوئی تھی۔ مسیحی جارج حباش کی بنائی ہوئی تنظیم پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کی اس ممبر نے 1969 اور 1970 میں دو جہاز یکے بعد دیگرے اغوا کیے تھے اور وہ تاریخ کی پہلی خاتون ہائی جیکر قرار پائی تھی۔

لیلی خالد نو اپریل 1944 کو حیفہ میں پیدا ہوئی اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت کی جانے والی یہودی دہشت گردی کی وجہ سے اس کے خاندان کو اپریل 1948 میں اپنا گھر چھوڑ کر لبنان جانا پڑا۔ پندرہ سال کی عمر میں لیلی خالد نے جارج حباش کی عرب قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگست 1969 میں تنظیم کو اطلاع ملی کہ امریکہ میں اسرائیل کے سفیر اسحاق رابن (بعد میں اسرائیل کے پانچویں وزیراعظم بنے) روم سے 29 اگست کو تل ابیب جانے والی ٹرانس ورلڈ ائیرلائنز کی فلائٹ 840 میں سفر کریں گے۔ لیلی خالد اور ان کے ساتھی سلیم عیساوی نے یہ جہاز اغوا کر لیا اور اسے دمشق لے گئے۔ ان کو یہ علم ہوا کہ اسحاق رابن جہاز میں موجود نہیں ہیں تو انہوں نے تمام مسافروں کو جہاز سے اتار دیا اور جہاز کا اگلا حصہ بم دھماکے سے تباہ کر دیا۔ شامی صدر نور الدین الاتاسی نے دونوں ہائی جیکروں کو رہا کر دیا۔ اس ہائی جیکنگ کے دوران مشہور فوٹوگرافر ایڈی ایڈمز نے سر پر فلسطینی رومال کوفیہ باندھے اور کلاشنکوف اٹھائے اس دھان پان سی لڑکی کی تصویر اتاری تو لیلی خالد راتوں رات فلسطین کی جدوجہد آزادی کا نشان بن گئی۔

لیلی کو یہ شہرت پسند نہیں تھی۔ وہ اپنا چہرہ گمنام رکھنا چاہتی تھی تاکہ وہ دیکھتے ہی پہچانی نہ جاسکے۔ اس نے اپنے چہرے کے چھے پلاسٹک سرجری کے آپریشن کروائے اور اپنی ناک اور ٹھوڑی کی شباہت تبدیل کروا لی۔ اب 1970 میں وہ اگلی ہائی جیکنگ کے لیے تیار تھی۔ لیلی خالد اس ہائی جیکنگ کا بہت پرلطف قصہ سناتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ اپنے نکاراگوا کے ساتھی پیٹرک آرگویلو کے ساتھ ایمسٹرڈم کے ائیرپورٹ پر اسرائیلی ائیرلائنز کے جہاز میں سوار ہونے کے لیے پہنچی۔ انہیں اسرائیلی افسران نے روکا اور نہایت باریک بینی سے ان کے بیگوں کی تلاشی لی لیکن انہیں کچھ نہ ملا۔ وجہ یہ تھی کہ گرنیڈ بیگ میں نہیں بلکہ لیلی کی جیبوں میں تھے۔ وہ دونوں ہنڈوراس کے پاسپورٹوں پر سفر کر رہے تھے۔ اسرائیلی افسر نے پوچھا ’کیا تم ہسپانوی بول سکتی ہو؟‘۔ لیلی نے جواب دیا ’سی سینور‘، جی ہاں جناب۔ لیلی کو ہسپانوی زبان کے بس یہی دو لفظ آتے تھے، مگر یہ دو لفظ بھی اسرائیلی افسر کو ڈھیر کرنے کے لیے کافی تھے۔

جہاز اڑا تو کچھ دیر بعد لیلی اور پیٹرک نے کاک پٹ پر دھاوا بولنے کی کوشش کی اور اس کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے۔ لیلی نے دانتوں سے ہینڈ گرنیڈ کی پن کھینچی اور کیپٹن کو حکم دیا کہ انہیں اندر آنے دیا جائے۔ لیکن جہاز پر مسلح محافظ موجود تھے جنہوں نے گرنیڈ کو نظرانداز کرتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی۔ پیٹرک کو چار گولیاں لگیں۔ ایک شخص آگے بڑھا اور اس کے سر پر وہسکی کی بوتل رسید کر دی۔ پیٹرک ڈھیر ہو گیا۔ لیلی کو شاید اس لیے گولی نہیں ماری گئی کہ اس کے ہاتھ میں گرنیڈ موجود تھے۔ اس کے سر پر بھی کسی شے سے ضرب لگائی گئی اور جب اسے ہوش آیا تو وہ بندھی پڑی تھی اور اسے لاتیں رسید کی جا رہی تھیں۔ لیلی نے گرنیڈ نہیں چلایا تھا کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ انہیں سخت ہدایات تھیں کہ انہوں نے کسی مسافر کو نقصان نہیں پہنچانا ہے اور صرف اپنا دفاع کرنا ہے۔ ’میں جہاز کو تباہ نہیں کرنا چاہتی تھی، گرنیڈ صرف دھمکانے کے لیے تھے‘۔ جہاز کو لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ پر اتارا گیا اور لیلی اٹھائیس دن تک حراست میں رہی، اس کے بعد اسے جارج حباش کی تنظیم کے قبضے میں موجود مغربی قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر دیا گیا۔

اس سے پوچھا جائے کہ کیا وہ ایک دہشت گرد ہے تو وہ جواب دیتی ہے کہ ’جب بھی میں یہ لفظ سنتی ہوں تو میں ایک سوال پوچھتی ہوں کہ، کس نے ہمارے علاقے میں دہشت گردی کا بیج بویا؟ کوئی آیا اور ہماری سرزمین چھین لی، ہمیں مجبور کیا کہ ہم چلے جائیں اور کیمپوں میں رہیں۔ میرے خیال میں تو یہی دہشت گردی ہے۔ اس دہشت گردی کی مخالفت کرنے اور اس کے اثرات روکنے کی کوشش کو ہم جدوجہد کہتے ہیں‘۔

فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنے والے مسیحی جارج حباش کی یہ مجاہد کسی مذہب کو نہیں مانتی۔ وہ کہتی ہے کہ ’میں سرعام مذہب پر تنقید نہیں کرتی ہوں، لیکن میں مذہب پر اعتقاد نہیں رکھتی ہوں‘۔ داعش کی طرف سے اردنی پائلٹ کو زندہ جلائے جانے پر اس نے کہا تھا کہ ’جن لوگوں نے اسے جلا ڈالا ہے وہ ویسے ہی ہیں جیسے وہ اسرائیلی جنہوں نے محمد ابو خدیر کو یروشلم میں جلا ڈالا تھا۔ دونوں واقعات میں حملہ آوروں کی بنیاد ایک ہی تھی، نازیوں اور فاشسٹوں کی طرح جو انسانی زندگی پر رحم نہیں کھاتے تھے۔ داعش کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس کا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، خاص طور پر اسلام سے۔ یہ دہشت گردی ہے۔‘۔ وطن کی محب کسی بھی عقیدے سے بالاتر ہوتی ہے۔

لیلی خالد کی دونوں ہائی جیکنگ میں ان کے ہاتھوں کوئی قتل نہیں ہوا تھا۔ لیکن فلسطینیوں کی ایک تنظیم ابو ندال آرگنائزیشن نے ستمبر 1986 میں ایک خونریز ہائی جیکنگ کی تھی جس سے پاکستان اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ اس خطے میں بین الاقوامی ائیرلائنوں نے آنے سے انکار کر دیا اور اس علاقے میں اپنا مرکز کراچی سے ہٹا کر دبئی لے گئیں۔ اس ہائی جیکنگ سے پہلے کراچی بین الاقوامی ہوابازی کی صنعت میں ایک اہم مستقر ہوا کرتا تھا۔

پانچ ستمبر 1986 کو پین ایم کی فلائیٹ نمبر 73 ممبئی سے اڑی اور کراچی پر اتری۔ یہ بوئنگ 747 جمبو جیٹ جہاز تھا جس میں تقریباً 380 افراد موجود تھے جن میں سے چوالیس پاکستانی تھے۔ اس کا اگلا مستقر جرمنی کا شہر فرینکفرٹ تھا جس کے بعد اس کی آخری منزل نیویارک تھی۔ جہاز کراچی پر رکا اور مسافروں نے ابھی مکمل طور پر سیٹیں سنبھالی بھی نہ تھیں کہ چار ہائی جیکر اندر داخل ہو گئے۔ فلسطینی دہشت گرد گروپ ابو ندال کے یہ چار افراد ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس کی وردیوں میں ملبوس ہو کر اور کلاشنکوفوں اور ہینڈ گرنیڈوں سے لیس ہو کر ایک ایسی وین میں ائیرپورٹ کے اندر داخل ہوئے جس کی شکل ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس کی گاڑیوں جیسی بنا لی گئی تھی۔ وہ سیدھے جہاز کی سیڑھیوں تک جا پہنچے اور بلا کسی رکاوٹ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

تئیس سالہ پرکشش اور مشہور ماڈل نیرجا بھانوت اس وقت کیبن کے عملے کی سب سے سینئیر ممبر تھی۔ لیکن جتنی وہ حسین تھی، اس سے زیادہ ذمہ دار اور بہادر تھی۔ ہائی جیکنگ کا شبہ ہوتے ہی اس نے اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھا اور جہاز کے کپتان ولیم کلینکا اور معاون پائلٹس کو خبردار کیا، جو کہ جہاز کی چھت پر موجود روزن کے ذریعے فوراً جہاز سے فرار ہو گئے۔ پین ایم ائیرلائن کا یہ موقف تھا کہ یہ کمپنی کی پالیسی تھی کہ جہاز کو ایسے حالات میں اڑنے کے قابل نہ رہنے دیا جائے۔ بعض ناقدین نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کسی سینئر شخص کو ہٹا کر مسافروں کو ناتجربہ کار افراد پر چھوڑنا ایک غلطی تھی اور وہ بحری روایات یاد دلائیں جس میں کپتان وہ آخری شخص ہوتا ہے جو کہ ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کو چھوڑتا ہے۔

بہرحال، کپتان اور پائلٹوں کے فرار کے بعد جہاز کی کمان تئیس سالہ نیرجا بھانوت کے پاس تھی۔ ہائی جیکروں کو یہ جان کر شدید شاک پہنچا کہ جہاز اب اڑنے کے قابل نہیں ہے۔ ہائی جیکروں سے مذاکرات کسی امریکی یا پاکستانی آفیشل کی بجائے پین ایم کے پاکستان کے سربراہ ویراف داروغہ کر رہے تھے۔ ہائی جیکروں کا مطالبہ تھا کہ ان کو پائلٹ دیے جائیں اور اپنی سنجیدگی دکھانے کے لیے انہوں نے حال ہی میں امریکی شہری بنے انتیس سالہ بھارتی نژاد راجیش کمار کو مسافروں اور مذاکرات کاروں کے سامنے سر میں گولی مار کر جہاز سے باہر پھینک دیا۔

ہائی جیکروں نے نیرجا کو کہا کہ تمام مسافروں کے پاسپورٹ اکٹھے کر کے ان کے حوالے کیے جائیں۔ نیرجا کو اندازہ ہو چکا تھا کہ ان کا مقصد امریکی مسافروں کی نشاندہی کرنا ہے، اس لیے اس نے امریکی مسافروں کے پاسپورٹ چھپا دیے۔ جہاز میں کسی امریکی مسافر کو نہ پا کر ہائی جیکروں نے برطانوی شہریوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے برطانوی شہری مائک تھیکسٹن کو بلایا اور اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر کوئی جہاز کے قریب آیا تو وہ مائک کو مار ڈالیں گے۔

ہائی جیکر زید حسن عبداللطیف مسعود السفرینی نے مائک سے پوچھا کہ کیا تم شادی شدہ ہو؟ مائک نے بتایا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے۔ مائک کے مطابق سفرینی نے کہا کہ ’مجھے اس سب پر افسوس ہے۔ مجھے یہ لڑائی اور قتل و غارت پسند نہیں ہے۔ میں بھی رقص کرنا، پینا پلانا، اور لڑکیوں کے ساتھ گھومنا پھرنا چاہتا ہوں۔ مگر ان امریکیوں اور اسرائیلیوں نے مجھ سے میرا وطن چھین لیا ہے۔ یہ سب اچھا نہیں ہو رہا ہے‘۔ مائک کہتا ہے کہ اس نے سنا کہ ہائی جیکر اس جہاز کو اڑا کر اسرائیل میں کسی عمارت سے ٹکرانا چاہتے تھے۔ چند گھنٹے بعد مائک کو اس کی سیٹ پر واپس بھیج دیا گیا۔

وقت گزرتا رہا اور رات ہو گئی۔ اس دوران نیرجا بھانوت نے جہاز کی ہدایاتی کتاب سے جہاز کا دروازہ کھولنے کے طریقے پر مبنی صفحہ پھاڑا اور ایک رسالے میں اسے رکھ دروازے کے قریب موجود مسافر کو تھما دیا اور اسے رسالے کو غور سے پڑھ کر اسے بند کر کے اپنے پاس ہی رکھنے کے لیے کہا۔

رات نو بجے جہاز کو بجلی سپلائی کرنے والے یونٹ میں خرابی پیدا ہوئی اور بتیاں بند ہو گئیں اور ایمرجنسی لائٹیں جل اٹھیں۔ ہائی جیکر گھبرا گئے۔ ان کے خیال میں جہاز پر قبضے کے لیے کمانڈو آپریشن شروع کیا جا چکا تھا۔ انہوں نے مسافروں کو جہاز کے درمیانی حصے میں اکٹھے ہونے کا حکم دیا گیا۔ ایک ہائی جیکر نے دعا مانگی اور دوسرے ہائی جیکر کی دھماکہ خیز بیلٹ پر فائرنگ شروع کر دی لیکن اندھیرے کی وجہ سے اس کا نشانہ چوک گیا اور ایک چھوٹا سا دھماکہ ہی ہو پایا۔ ہائی جیکروں نے مسافروں پر فائرنگ شروع کر دیا اور اپنے اپنے ہینڈ گرنیڈ پھینکنے کی کوشش کی مگر مسافروں کو دوبارہ اندھیرے نے بچا لیا اور گرنیڈوں کی پنیں پوری طرح نہ کھینچی جا سکیں۔

جہاز کے ایک دروازے پر موجود فلائیٹ اٹینڈینٹ نے دروازہ کھول دیا اور مسافروں نے پندرہ فٹ کی بلندی سے نیچے چھلانگیں لگانی شروع کر دیں۔ جس مسافر کو نیرجا نے رسالہ دیا تھا وہ بھی اپنا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گیا اور اس کی سیفٹی سلائیڈ بھی کھل گئی۔ نیرجا نے خود باہر نکلنے کی بجائے مسافروں کو باہر نکالنے کی کوشش کی بلکہ ان کو دھکے دے دے کر سلائیڈ پر پھینکا۔

ایک روایت یہ ہے کہ وہ تین بچوں کو گولیوں سے بچاتے ہوئے اپنے جسم کی آڑ میں رکھے ہوئے تھی کہ اسے گولیوں کی باڑھ لگی اور وہ ماری گئی۔ ایک دوسرے مسافر کا بیان ہے کہ وہ تمام مسافروں کی باہر نکلنے میں مدد کر رہی تھی کہ ایک ہائی جیکر نے اسے بالوں سے پکڑا اور اس کے سر میں گولی اتار دی۔ اکیس مسافر مارے گئے اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ سلسلہ اسی وقت تھما جب دہشت گردوں کی گولیاں ختم ہو گئیں۔ مارے جانے والوں میں تیرہ بھارتی، تین پاکستانی، دو میکسیکی، دو امریکی اور ایک برطانوی شہری شامل تھے۔

جہاز کے اغوا ہوتے ہی بریگیڈئیر طارق محمود کی سربراہی میں پاکستانی فوج کے کمانڈوز کا ایک دستہ کراچی ائیرپورٹ پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے جہاز میں داخل ہو کر ہائی جیکروں کو گرفتار کر لیا۔ ان کو سزائے موت دی گئی جو کہ بعد میں عمر قید کی سزا میں بدل دی گئی۔

نیرجا بھانوت کو اس کی بہادری کے اعتراف میں صدر پاکستان جنرل ضیا الحق نے ’تمغہ انسانیت‘ دیا (پاکستان کا چوتھا بڑا ایوارڈ تمغہ پاکستان دیے جانے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ درست ایوارڈ کی تصدیق کرنا مشکل ہے)۔ اس کے بعد بھارت نے بھی اسے بہادری کے سب سے بڑے شہری اعزاز اشوک چکر سے نوازا۔

کراچی ائیرپورٹ سے نیرجا بھانوت کے ساتھ ہی بین الاقوامی ائیرلائنز بھی رخصت ہو گئیں۔ جس جھیل میں شکار ہونے لگے، اسے پرندے چھوڑ جاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments