خواتین، مسجد میں


”مسجد اللّٰہ کا گھر ہےـ یہاں ادب سے رہتے ہیں ـ شور نہیں کرتے۔“ ماوں کی زبانی مسجد کے احترام کے اس قسم کے جملے اور ان پر عمل کی لگن کا یہ منظر ہمارے لیے ہمیشہ دل چسپی کا باعث رہا۔ چند سالوں سے مسجد میں عشا اور نمازِ ترایح کی سعادت حاصل ہو رہی ہےـ با جماعت نماز کی فیضلت تو اپنی جگہ ہے ہی‘ مگر خواتین کے دن بھر کی مشقت کے بعد گھر کی ہر طرح کی مصرفیات سے دامن چھڑا کر مسجد کی جانب لپکنا‘ اسلام کی محبت کی جانب بڑی پیش قدمی لگتا ہےـ

ان خواتین میں ہر عمر کی خواتین بلکہ بہت چھوٹے بچے بچیاں بھی ہوتے ہیں۔ بہت اچھا لگتا جب مائیں اپنے ساتھ لاۓ گئے کم عمر بچوں اور بچیوں کو مسجد اور نماز کے آداب کی جانب متوجہ کر رہی ہوتی ہیں۔ کہیں چھوٹی بچیوں کے اسکارف اور دُپٹے‘ نماز کے ستر کے مطابق درست کیے جا رہے ہوتے ہیں‘ کہیں ان کی آستینیں سیدھی کر کے کلائیوں تک لانے اور پوری آستینوں کی تنبیہیں ہیں‘ کہیں ٹراوزر کے ٹخنے چھپانے کی حد پر توجہ دلائی جا رہی ہے۔

ایسے میں کچھ بچے نا سمجھی میں نماز میں خلل بھی ڈال دیتے ہیں۔ چند خواتین کو اس پر اعتراض بھی ہو جاتا ہے جو مسجد کے احترام کی رُو سے بجا بھی ہے‘ لیکن اس پر دل کشادہ کرنے اور اصلاح کی کوشش جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ آج کے دور میں مسجد آنے والی خواتین اور بچے بچیاں وہ ہیں‘ جو اگر اس وقت مسجد میں نہ ہوں‘ تو ٹی وی انٹرنیٹ کی دُنیا میں ہوں گے۔ جہاں نقصانات ان کے فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایسی صورت میں مسجد سے تعلق اور دینی شعور خصوصاََ خواتین اور بچے بچیوں کی اہم ضرورت ہے۔

جب کبھی ہمیں پچھلی صفوں میں جگہ ملتی‘ خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو ایک امام کی اِقتدا میں رکوع و سجود کرتے دیکھ کر فخر کا احساس ہوتا۔ ننھی ننھی بچیاں اور جوان‘ بزرگ خواتین‘ رنگ برنگے لباس اور رنگ رنگ کی جائے نماز کے ساتھ مگر امام کی ہر آواز پر یک دم‘ یک سو۔

ایک دن امام صاحب کے لیے گلے کی شدید تکلیف کے باعث‘ بمشکل دو یا چار رکعات کے بعد قرات کرنا ممکن نہ رہا‘ پھر بقیہ تقریباََ اٹھارہ رکعات تراویح مسجد ہی کے امام صاحب نے پڑھائی۔ وہ حافظِ قرآن نہ تھے شائد؛ یا کوئی اور وجہ کہ انھوں نے تراویح میں جاری قرآن کی آیات کی پچھلی ترتیب کو جاری رکھنے کے بجائے دیگر آیات اور مختصر سورتوں کے ساتھ بیس رکعات تک نمازِتراویح مکمل کروائی۔ ہمارا خیال تھا کہ اب تروایح کے اختتام پر خواتین کو بحث اور فکرمندی کا موضوع ہاتھ آ جائے گا کہ ”اب مقررہ وقت میں قرآن کیسے مکمل ہوگا؟“ گھر میں کچھ خلافِ توقع ہو جائے‘ تو خواتین کے اعتراضات کو روکنا مشکل ہوتا ہے‘ مگر یہاں حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ تراویح والے امام صاحب نے صحت یاب ہو کر دوسرے دن سے اپنی باقی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کی۔ یعنی سورتوں کی پچھلی ترتیب کو جاری رکھتے ہوئے‘ تراویح پڑھائی۔ کسی نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یقیناََ یہ سب باجماعت نماز کی برکت ہی تھی۔

کتنا اچھا ہو کہ چند مساجد کے بجائے ہر مسجد میں کم از کم رمضان میں خواتین کی با جماعت نماز کی ادائی اور عیدین کا اہتمام کیا جائے۔

پیارے نبیﷺ نے خواتین کو مسجد کی اجازت مانگنے پر روکنے سے منع فرمایا‘ ساتھ ہی آپﷺ نے مسجد کے بجائے گھر کو زیادہ بہتر بتایاـ یہ اجازت صحابیات کے اصرار اور آپﷺ کی پیچھے نماز ادا کرنے کی حد درجہ ایمانی چاہت تھی۔ اگرچہ اس وقت کے پاکیزہ ماحول میں مسجد جانے میں کسی برائی کے خطرے یا فتنے کا اندیشہ نہ تھا‘ آپ نے خصوصاََ رات کی اجازت کی سفارش کی۔

عیدین میں مسجد میں خواتین کی باجماعت نماز کا تذکرہ بھی سنتِ نبویﷺ کا حصہ ہےـ بعض علما کے نزدیک عیدین میں خواتین اور بچوں کی شرکت مسنون ہے۔ حفصہ بنتِ سیرین رض کی روایت کے مطابق آپﷺ نے عید کے دن نکلنے کا حکم دیا تھا۔ یہاں تک کہ کنواری عورت بھی پردے کے ساتھ نکلتی تھی۔ (صحیح بخاری، کتاب العیدین)

صحیح مسلم کی متفرق روایات کے مطابق آپﷺ نے عید کی نماز پڑھانے اور خطبہ دینے کے بعد خواتین کی طرف آ کر انھیں وعظ و نصیحت کی‘ کہ صدقہ کیا کرو‘ کیوں کہ تم میں سے اکثر (شکوہ شکایت اور شوہروں کی نافرمانی کے باعث) جہنم کا ایندھن ہو۔ اس کے بعد خواتین نے اپنے زیورات کو صدقہ کرنا شروع کر دیا۔ (صحیح مسلم،کتاب صلٰوۃالعیدین)

حضرت ابنِ عباس رض کے مطابق کریمﷺ عید کے روز اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو عید گاہ لے جایا کرتے تھےـ (سنن ابنِ ماجہ کتاب صلٰواۃ العیدین)

البتہ بعض جگہ میں خواتین کے عید گاہ جانے کے حکم کو حضرت عائشہ کی تنبیہہ کی بِنا پر منسوخ مانا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کے مطابق‘ آپﷺ کے بعد اس زمانے میں خواتین میں آنے والی نئی نئی تبدیلیاں‘ اگر آپﷺ دیکھ لیتے تو منع فرما دیتے۔

یہ اُس وقت کی بات ہے‘ جب خواتین گھروں میں رہا کرتی تھیں۔ اب ان کا تعلیمی اداروں‘ کام کی جگہوں‘ بازاروں اور تفریح گاہوں میں ہونا نا گزیر ہے۔ ان مقامات سے خواتین میں آنے والی تبدیلیاں‘ بلکہ فتنے اُس زمانے سے کہیں بڑھ کے ہیں۔ باہر کی بات ہی کیا‘ اب تو ٹی وی‘ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی صورت میں سارا ”باہر“، گھر کے ”اندر“ ہی آ چکا ہے۔

ان حالات و احکامات کو اکٹھا کرتے ہوئے‘ دیکھا جائے تو خواتین خصوصی نمازوں جیسے تراویح اور عیدین کی نمازوں کے لیے مساجد جا سکتی ہیں۔ تاہم اسلامی احکام کا خصوصی لحاظ ضروری ہے‘ جیسے زینت کے اظہار‘ بناو سنگھار‘ خوش بو اور بے پردگی سے بچتے ہوئے۔

اہلِ مساجد اور علماء کرام کو اس جانب سوچنا چاہیے۔ مسجد میں خواتین کے لیے فرض نمازوں کی ادائی کا مستقل علاحدہ انتظام ہو۔ جہاں نماز کے علاوہ بھی انھیں دیگر علمی و تعمیری سرگرمیوں کے مواقع مل سکیں۔ اس سے خواتین بھی با جماعت نماز کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں گی۔ خاص طور پر امام کی اقتدا اور اطاعت‘ ان میں گھر کے سربراہ کی اطاعت کا احساس گہرا کرے گی۔ ان کے ساتھ موجود بچے اور بچیوں کا مسجد سے تعلق بڑھے گا۔ دین سے آگہی و محبت بڑھے گی۔ دوسرے غیر تعمیری سرگرمیوں کا کچھ وقت ضائع ہونے سے بچ سکے گا۔ یہ معاشرے کی بکھرتی اقدار قابو میں کرنے کا نسخہ بھی بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).