باقی کام چھوڑو، بس حلوا پکاو


ایک لوک کہانی کچھ یوں ہے، کہ کسی ملک کا بادشاہ وفات پاگیا۔ اس کی تدفین کے بعد رعایا کو اپنا ایک بادشاہ چننا تھا۔ ان کے بادشاہ کے انتخاب کا طریقہ کار کچھ یوں تھا، کہ تمام لوگ جو کہ بادشاہ بننے کے خواہش مند ہوتے تھے، وہ ایک وسیع میدان میں اکٹھے ہو جاتے اور ایک پرندہ ہوا میں چھوڑ دیا جاتا تھا۔ وہ پرندہ جس کے سر پہ آ کر بیٹھ جاتا، وہ ان کا اگلا بادشاہ بن جاتا۔ متعین ضابطے کے تحت پرندے کو ہوا میں چھوڑا گیا۔ پرندہ ایک شخص کے سر پہ جا کر بیٹھ گیا۔ سب اس اجنبی کی طرف متوجہ ہو گئے، کہ آخر یہ خوش قسمت کون ہے۔ وہ شخص اس ہجوم کے مقصد سے نا واقف تھا۔

لوگوں نے مبارک باد دی، کہ بھائی مبارک ہو، آپ ہمارے ملک کے بادشاہ بن گئے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ لوگو میں تو آپ کے شہر کا نہیں ہوں روزی کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا ہجوم دیکھا تو یہاں آ کر رک گیا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ جو بھی تھے لیکن اب اۡٓپ ہمارے بادشاہ ہیں۔ آپ جو بھی حکم دیں گے ہمیں من و عن منظور ہوگا۔ جو خواہش کریں گے وہ پوری کریں گے۔ بندہ کوئی درویش صفت انسان تھا۔ اس نے ایک منٹ سوچا اور پھر بادشاہ بننے کی حامی بھر لی۔ اعلان کروا دیا کہ پورے ملک میں حلوے کی دیگیں پکائی جائیں۔ ہمیں کھلایا جائے اور تمام عوام کو بھی۔ حکم بجا لایا گیا۔ حلوا پکا کر کھلا دیا گیا۔

اگلے روز دربار لگا فریادی اپنی اپنی فریاد لے کر آئے۔ بادشاہ نے فریاد سنی اور حکم دیا کہ حلوا پکایا جائے اور اس فریادی کو بھی اور ہمیں بھی کھلایا جائے۔ اب یہ روز کا معمول بن گیا، جو بھی فریادی فریاد لے کر آتا اس کو حلوا کھلا کر فارغ کر دیا جاتا اور فریادی کی فریاد کو نظر انداز کر دیا جاتا۔

تمام لوگ بشمول فریادی حیران تھے کہ یہ کیسا بادشاہ ہے جو ہر وقت حلوا پکانے کا حکم دیتا رہتا ہے اور ہمارے بنیادی مسائل پہ توجہ ہی نہیں دیتا۔ آہستہ آہستہ یہ خبر دشمنوں تک پہنچ گئی کہ اس ملک کا بادشاہ ایک دم نکما اور بے وقوف ہے۔ حلوے کا بہت شیدائی ہے۔ چناں چہ انھوں نے موقع غنیمت جانا اور حملہ بول دیا۔ سپاہیوں نے آکر بتایا کہ بادشاہ سلامت ساتھ والے ملک نے ہم پہ حملہ کر دیا ہے، ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ بادشاہ نے حکم دیا کہ حلوا پکاو، مجھے بھی کھلاو اور خود بھی کھاو۔ حکم کی تعمیل کر دی گئی۔ کچھ دیر بعد ایک سپاہی اور آیا اور بولا کہ بادشاہ سلامت حملہ آوروں نے ہمارا آدھا رقبہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ کیا حکم ہے ہم بھی جوابا حملہ بول دیں؟ بادشاہ نے بات سنی ان سنی کر دی اور پھر سے حلوا پکانے کا فرمان جاری کر دیا۔

کچھ دیر بعد ایک اور سپاہی دوڑتا ہوا آیا۔ عرض کی کہ سرکار دشمن ہمارے قلعے تک پہنچنے والا ہے۔ ہمیں بتائیے کہ اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ ایسا کرو، پھر حلوا پکاو۔ آپ بھی کھاو اور مجھے بھی کھلاوٗ۔ اتنی دیر میں دشمن قلعے پر چڑھ دوڑا، تو ایک وزیر بولا، کہ بادشاہ سلامت اب کیا حکم ہے، دشمن تو گھر میں گھس گیا ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ آپ ایسا کرو کہ میرا وہ ڈنڈا اور گھٹڑی مجھے لا کر دو، اب میں اپنے گھر چلتا ہوں۔ تم جانو اور تمھارا دشمن جانے۔ میں تو بس چند دن حلوا کھانے کے لیے آیا تھا۔ مجھے آپ اور آپ کے اس ملک سے کوئی سروکار نہیں۔ میں تمھارا بادشاہ نہیں ہوں۔ اتنا کہا اور بادشاہ سلامت نے گھٹڑی سر پہ رکھی اور اپنے گھر کو ہو لیا۔

ہمارے ملک کی کہانی بھی اس لوک کہانی سے مختلف نہیں ہے۔ شہباز شریف صاحب نے کل الوداعیہ خطاب کیا۔ کہا کہ اب آپ جانو اور آپ کی لوڈ شیڈنگ جانے، مجھے کل کوئی کچھ نہ کہے۔ میں اپنے گھر جا رہا ہوں۔ حالاں کہ دو ہزار تیرہ میں اس بندے کا منشور یہی تھا، کہ دو ماہ میں بجلی کے بحران پہ قابو پا لیا جائے گا۔ پورے پانچ سال حلوا کھانے میں گزار دیے، لیکن بجلی نہ بن پائی۔ ملک میں اچھے اسپتالوں کی کمی ہے، لیکن جناب نے پورے پانچ سال صرف سڑکوں ہی کو اہمیت دی۔ ملک پانی کے مسئلے سے دوچار ہونے والا ہے، لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں۔ سب نے اپے اپنے حصے کا حلوا کھا لیا ہے۔

اب جب دن ختم ہو گئے ہیں، تو اپنا اپنا بوریا بستر سمیٹ کر کہتے ہیں، کہ اب آپ جانو یا آپ کے مسائل۔ ہمیں کوئی کچھ نہ کہے۔ اب آپ لوگ بتائیں کہ اس میں بادشاہ کا قصور ہے یا اس عوام کا جس نے اندھے ہو کر ان کو اپنا بادشاہ قبول کیا؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قصور سراسر ہمارے عوام ہی کا ہے۔ اب بس منت ہی ہے کہ خدارا اب کی بار آنکھیں کھول کر اور بریانی کے ڈبے کو پس پشت ڈال کر، کسی ایسے کو ووٹ دیں جو کہ حلوا کھانے والا نہ ہو، بلکہ لوگوں کے اور ملک کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کا حقیقی معنوں میں سدباب کر نے والا ہو۔ اگر اب کی بار ایسا نہ کیا، تو تم لازمی مٹ جاو گے۔ وہ پانچ سال بعد پھر اپنی گھٹڑی کندھے پہ رکھ کر، لندن کو جاتا ہوا کہے گا، کہ بھئی آپ لوگ جانو یا آپ کے مسائل، میرا اب آپ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔

سیٹھ وسیم طارق
Latest posts by سیٹھ وسیم طارق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).