گلگت بلتستان کے لوگوں کی اہل پاکستان کو مبارکباد اور کچھ سوال


گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تسلسل کے ساتھ دو سری بار کسی منتخب حکومت کا ’میرے عزیز ہموطنو‘ کی صدا پر بستر گول ہو نے کے بجائے خود ہی اپنے خیمے اکھاڑ کر پھر سے انتخابی معرکے میں اترنے پر ملک کے عوام کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اورمستقبل میں اس تسلسل کے تسلسل کے لئے دعا گو ہیں ۔ گو اپنے دور اقتدار میں جمہوری حکومتیں اپنی مدت بھی ایک عدت کی طرح گزارتی ہیں جس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں کسی بات سے ان کی عفت و عصمت کو آنچ نہ آئے اور وہ مطعون و ملعون ہوکر رندہ درگاہ نہ ٹھہریں۔ کسی آمر کے برعکس ایک منتخب حکومت کو ناک کی سیدھ میں دیکھنے کے بجائے اپنی نظریں زمین پر بھی رکھنی ہوتی ہیں کہ کسی ناہموار جگہ پر رکھا کوئی غلط قدم گمنامی و بدنامی کے پاتال میں نہ لے کرجائے۔ کسی جمہوری حکومت کے لئے اپنی کارکردگی کے علاوہ مملکت کے ان اداروں کا بھی حساب دینا ہوتا ہے جن پر نہ ان کا حکم چلتا ہے نہ فریاد اثر کرتی ہے۔

تسلسل سے دہائیوں تک بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے کے بعد بھی ہشاش بشاش نظر آنے والے آمروں کے برعکس صرف پانچ سال بعد ہی جمہوری حکومتوں کے چہرے پر تھکن اور بے زاری صاف نظر آنے لگتی ہے جو اس بات کا مظہر ہوتی ہے جمہوریت میں اقتدار پھولوں کا سیج نہیں بلکہ ایک کٹھن اور پرخار راہ ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کربے فکری سے حکومت کرنے والے آمروں کے بر عکس منتخب حکمرانوں کو قانون و آئین کی پاسداری پر پوچھے گئے تاریخ کے سوالوں کے جواب بعد از حیات بھی دینا ہوتے ہیں ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود جمہوریت ہی وہ راستہ ہے جو بغیر کشت و خون اور جنگ و جدل کے تخت اقتدار تک لے جاتا ہے وگرنہ دہلی روز ہی اجڑتا، تخت طاؤس ہر دن ایک نئے شہر میں پہنچتا اور چاندنی چوک سے لال قلعے تک بہنے والی خون کی ندی کبھی خشک ہی نہ ہو پاتی۔ ایک حکمران دوسرے کو پھولوں کا ہار پہنا کر اس کی کامیابی کے لئے دعا گو ہو یہ جمہوریت ہی کا حسن ہے وگرنہ تاریخ میں تو بوڑھے باپ کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر زندان میں قید کر کے حکومت کرنے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ماں باپ کے سامنے اولاد کی گردنیں اتارنے کو کوئی بڑی بات ہی نہیں سمجھا جاتا۔

گلگت بلتستان کے لوگ یہ بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ آٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان میں وفاقی حکومت کے پاس سوائے مملکت کے دفاعی، مالی، خارجی اور داخلی معاملات کے کچھ نہیں لیکن اس کے باوجود بھی زراعت، تعلیم، صحت اور امن و امان سمیت ہر کامیابی کا سہرا اور ناکامی کی زمہ داری بھی ملک کے وزیر اعظم کے سر پر ڈالا جاتا ہے۔ ہمیں وفاقی طرز جمہوریت سے آشنائی اور تاریخ کے صفحوں میں موجود خلفاء، بادشاہوں اور سلاطین سے دور حاضر کے سلطانی جمہور کو الگ کرنے میں بھی ابھی وقت درکار ہے۔ ہمیں اپنے حکمرانوں کے منہ سے شاہی فرامین کی توقعات کو پارلیمانی قوانین کی امیدوں میں بدلنے کی عادت ڈالنے میں بھی دقت درپیش ہے۔ اب بھی ہمارےایوان ہائے اقتدار کی بھول بھلیوں میں ہٹو بچو کی آوازیں اور درباروں میں باآدب با ملاحظہ کی صدائیں سنائی دینے کے باوجود کوئی وزیر اعظم اور صدر ظل سبحانی اور عالم پناہ جیسے شاہی القاب نہیں رکھتا۔ ہماری اشرافیہ کے رائے عامہ پر مشاورت باہمی کو ترجیح دینے کے باوجود بھی کثرت رائے کے برحق ہونے کےآفاقی اصول کی وجہ سے عوام کی خواہش کا احترام صرف جمہوریت میں ممکن ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہوتی ہے ۔

جمہوری حکومتوں کا دوسری بار تسلسل کے ساتھ مدت اقتدار و اختیار کی تکمیل کا یہ موقع بلا شبہ قابل تحسین و ستائش سہی مگر کچھ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب جمہوری حکومتوں کو اگر اب نہیں تو تاریخ کے صفحات میں دینا ہوگا۔ پاکستان کی مختصر تاریخ میں لمبے عرصے تک چلنے والی آمریتوں کے دوران تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کا نوحہ پڑھنے والوں کو جمہوری دور میں اپنے گھروں سے غائب کئے گئے جوانوں اور بزرگوں کا بھی پتہ بتانا ہوگا جن کے انتظار میں بوڑھی ماؤں کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں اور اپنے سہاگ کے انتظار میں سہاگنوں کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ دور آمریت کے مورو، ٹھوڑی پھاٹک ، جلال آباد گلگت اور پارہ چنار کے خون آشام واقعات کا ماتم کرنے والوں کو دور جمہوریت میں ہونے والے خون کا حساب بھی دینا ہوگا جہاں سینکڑوں بے کفن لاشوں کو کاندھوں پر اٹھاکر ورثا قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ غیر جمہوری حکمرانوں کے دور اقتدار میں لوگوں کے جمہوری حقوق کی پامالی کا رونا رونے والوں کو جمہوری ادوار میں ہونے والے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کا بھی جواب دینا ہوگا۔ دور آمریت میں لال مسجد آپریشن میں بے گناہ مارےجانے والوں کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو یہ بتانا ہوگا کہ ان کے دور میں مشال خان، چرنجیت سنگھ ، شہزادمسیح ، شمع بی بی شہباز بھٹی ، نقیب اللہ محسود، باز محمد کاکڑ اور اس کے ستر ساتھی کس جرم میں مارے گئے۔

پاکستان وفاقی دارالحکومت ، چار صوبوں، اور سات قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل ہے جس کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان  منسلک ہیں ۔ آزاد کشمیر کی حیثیت ایک داخلی طور پر خود مختار ریاست کی ہے جس کا اپنا ایک عبوری آئین ، صدر اور وزیر اعظم موجود ہیں جو ایک مقننہ سے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ پاکستان اپنے موقف میں کشمیر کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور اس کے اپنے ساتھ الحاق کا متمنی ہے۔ تاوقتیکہ کشمیر کا پاکستان سے استصواب رائے کے تحت الحاق ہو اس کی داخلی طور پر خود مختار اور آزاد ریاست کی حیثیت تسلیم کرلی گئی ہے۔ مگر گلگت بلتستان کے نصیب میں اب تک بے آئینی اور لاقانونیت کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں جن کے چھٹنے کی موہوم سی امید بھی پاکستان کی خالق کہلانے والی جماعت نے اپنے پہلے مکمل اور طویل ترین دور اقتدار میں ختم کر ڈالی۔

پاکستان میں ووٹ کے تقدس کا رونا رونے والے نواز شریف کی جماعت نے گلگت بلتستان کے لوگوں کے ووٹ کو ایک ردی کی کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء میں پاکستان کے وزیر اعظم کو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے کسی بھی فیصلے، قانون سازی اور مطالبہ یا درخواست کو مسترد کرنے کے لامحدود اختیارات دے کر مسلم لیگ کی طرف سے خود اپنی جمہوریت پسندی اور ووٹ کے تقدس کے اپنے موقف کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کیا گلگت بلتستان میں بسنے والے انسان نہیں جن کو اپنے معاملات اپنی مرضی سے چلانے کو وہ آفاقی حق حاصل نہیں جو کوئٹہ، لاہور، پشاور یا کراچی میں رہنے والوں کو ہے۔ کیا دنیا کے کسی منتخب وزیر اعظم کو کسی ایسے علاقے میں ایسے اختیارات حاصل ہونے کی کوئی مثال ہے جہاں کے لوگ اس کے انتخاب اور احتساب میں شامل نہیں؟ مسلم لیگ جس کا آئندہ انتخابات عوام کے حق حکمرانی اور ووٹ کے تقدس کے نعرے کے ساتھ لڑنے کا ارادہ ہے وہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو اکیسویں صدی میں بد ترین غلامی میں جکڑنے کا کوئی جواز پیش کر سکتی ہے۔

جولائی میں جب پاکستان کے لوگ آئندہ انتخابات میں ووٹ ڈال رہے ہونگے تو گلگت بلتستان کے لوگ ان کے ووٹوں سے منتخب حکومت کے نشتر سے لگے زخم بے بسی سے سہلا رہے ہوں گے۔ جب آپ کے ووٹوں سے منتخب حکومت کے شاہی فرمان کے مطابق گلگت بلتستان کے لوگوں کو غدار، ملک دشمن اور دیگر من پسند الزامات کے تحت سزائیں دی جارہی ہوں گی تو یاد رکھئے گا کہ اس فیصلے میں آپ برابر کے شریک ہیں۔ جس طرح دنیا کے لوگ امریکی اور برطانوی پالیسیوں کے جبر کا ذمہ دار ان ممالک کے عوام کو ٹھہراتے ہیں اسی طرح گلگت بلتستان میں پاکستان کی جمہوری حکومتوں کے صحیح اور غلط فیصلوں میں یہاں کے رائے دہندگان ذمہ دار ہیں۔

جس طرح آپ کو اپنے اجتماعی معاملات اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلانے کا حق ہے اسی طرح گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی یہ حق ہونا چاہیئے جو فی الحال رخصت ہونے والی مسلم لیگی حکومت نے جاتے جاتے گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کی شکل میں اپنی پارلیمان اور گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں سے اس بارے میں مشاورت کئے بغیر ہی مسلط کر دیا ہے۔ مسلم لیگ کے جرم کا سب سے بڑا ثبوت اس آرڈر کو خفیہ رکھ کر آخری دنوں میں جاری کرنا ہے جو جمہوریت اور شفافیت کے آفاقی اصولوں کے منافی ہے۔

جب آپ ووٹ دینے جائیں تو اپنے ووٹ کے حقداروں سے ایک سوال ضرور پوچھیں کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو آپ کی طرح برابری کا حق دینے کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے؟ جمہوریت اور برابری کا حق اگر پاکستان کے دیگر لوگوں کے لئے بہتر ہے تو گلگت بلتستان کے لوگوں کے کیوں نہیں؟ گلگت بلتستان کے لوگ یہ مطالبہ آپ سے اس لئے کر رہے ہیں کہ آپ کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کا منتخب وزیر اعظم ان کا آقا ہونے والا ہے جس کی ہر بات ان کے لئے شاہی فرمان کا درجہ رکھتی ہے جس کی حکم عدولی ان کے لئے قابل تعزیر جرم ہے، ہمارے آقا کو منتخب کرتے ہوئے ہماراب ھی خیال ضرور رکھیے گا کہ ہم بھی آپ جیسے انسان ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan