محبت کی اپنی زبان ہوتی ہے


کل رات میرے شاعر دوست امیر حسین جعفری کا لاہور سے فون آیا۔ وہ پچھلے سال ہمیں کینیڈا میں داغِ مفارقت دے کر پاکستان چلے گئے ہیں تا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اخی اور زائر کو اردو زبان سکھا سکیں اور پاکستان میں اپنی روایت اور ثقافت سے متعارف کروا سکیں۔امیر جانتے ہیں کہ ان کے چھوٹے بیٹے اخی کا مجھ سے محبت کا گہرا جذباتی رشتہ ہے۔ کہنے لگے اخی نے اپنے سکول میں احتجاج کر دیا ہے

جب اخی کی اردو کی ٹیچر نے اخی سے پوچھا

کیا آپ چھٹی کا مطلب جانتے ہیں؟

تو اخی نے کہا HOLIDAY

ٹیچر نے کہا ‘کیا آپ اسے ایک جملے میں استعمال کر سکتے ہیں تو اخی نے کہا

I LOVE HOLIDAY. I DO NOT WANT TO COME TO SCHOOL

 پھر اخی نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا

I WAS BORN IN CANADA. MY LANGUAGE IS ENGLISH. I DO NOT WANT TO LEARN URDU. IT IS ALL MY DADDY’S FAULT. HE BROUGHT US TO PAKISTAN.

امیر جعفری کی طرح نجانے کتنے ایسے مہاجر والدین ہیں جو اپنے بچوں کو پاکستان لے جانا چاہتے ہیں تا کہ ان کا پاکستان‘ اردو اور اسلام سے تعارف کروا سکیں اور اخی کی طرح نجانے کتنے کینیڈین بچے ہیں جو پاکستان جانے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں کیونکہ وہ کینیڈا میں رہنا چاہتے ہیں۔ کینیڈا میں نجانے کتنے پاکستانی والدین ہیں جو بچوں سے اردو یا پنجانی یا پشتو میں بات کرتے ہیں اور بچے انگریزی میں جواب دیتے ہیں۔۔ ایسے بچوں کو ہم PASSIVELY BILINGUAL کہتے ہیں کیونکہ وہ ماں باپ کی زبان سمجھتے ہیں لیکن جواب انگریزی میں دیتے ہیں۔ ایسے بچے پاکستانی کھانوں کی بجائے کینیڈین کھانے زیادہ پسند کرتے ہیں۔

کینیڈا کے مہاجر خاندانوں میں کافی عرصے سے زور شور سے بحث ہو رہی ہے کہ والدین کی سماجی ذمہ داریاں کیا ہیں اور بچوں کے انسانی حقوق کیا ہیں۔ بہت سے پاکستانی والدین کی شدید خواہش ہے کہ ان کے بچے اپنے والدین کے مذہب ‘روایت اور ثقافت سیکھیں لیکن کینیڈین بچے اپنے سکول اور دوستوں سے کینیڈین ثقافت سیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بچے ایک سے زیادہ زبانیں اور ثقافتیں سیکھ سکتے ہیں۔ کیا مہاجر بچے ایک MULTI CULTURAL LIFESTYLE اپنا سکتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں نجانے کتنی ہجرتیں ہوئیں اور مہاجر خاندانوں کی کتنی زبانیں اور تہذیبیں بدلیں۔ اگر میں اپنے خاندان کی مثال دوں تو میری نانی اماں امرتسر میں کشمیری زبان بولتی تھیں کیونکہ ان کے آبا و اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ میری والدہ لاہور میں پنجابی بولتی تھیں اور میں پشاور میں دوستوں کے ساتھ پشتو بولتا تھا۔ ہمارے خاندان نے تین نسلوں میں تین زبانین سیکھیں۔ اب جبکہ میں کینیڈا میں رہتا ہوں تو میں اپنے مریضوں سے انگریزی بولتا ہوں۔ اخی کی طرح بہت سے مہاجر بچے اپنے والدین اور اساتذہ کو چلینج کرتے رہتے ہیں۔ میرے دو شعر ہیں

نئی کتاب مدلل جواب چاہیں گے

ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے

حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحے لمحے کا

ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے

جدید دور کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی جائز خواہشات اور ضروریات کا خیال رکھیں اور ان کے خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے میں ان کی مدد کریں۔ آج کے بچوں اور نوجوانوں کی خود اعتمادی دیدنی ہے۔ وہ اپنا مافی الضمیر بڑی بہادری سے پیش کرتے ہیں۔ میں اپنے دوست امیر حسین جعفری سے متاثر ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں سے مکالمہ کرتے ہیں۔ یہ وصف انہوں نے اپنے شاعر والد اختر حسین جعفری سے سیکھا ہے جو اپنے بچوں سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے اور ان کی رائے کا احترام کرتے تھے اور ان سے مکالمہ کرتے تھے۔ مکالمہ ہی ایک بہتر رشتے کا راز ہے۔ امیر کو بھی اپنے بیٹے اخی‘ جو اختر حسین جعفری جونیر ہے‘ سے مکالمہ کرنا ہے اور کوئی صحتمند حل تلاش کرنا ہے۔

کینیڈا میں میری اخی سے دوستی تھی۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ میں ان کے گھر جاتا تو وہ میری گود میں آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ ہم سب مل کر میکڈونلڈ جاتے تھے اور ہمبرگر اور فرنچ فرائیز کھاتے تھے۔

میں جب پاکستان گیا تھا تو اخی اپنے بھائی اور والدین کو لے کر مجھ سے ملنے آیا تھا۔ پھر ہم سب میکڈونلڈ کھانے گئے تھے اور ہمبرگر کھانے کے بعد اخی نے بڑی اپنائیت سے مجھ سے کہا تھا کہ میں اسے ایک کھلونا خرید کر دوں۔ اخی کی والدہ سیمیں نے مجھے بتایا تھا کہ اخی ایسی فرمائش کسی اور سے نہیں کرتا۔ اخی جانتا ہے کہ میں اسے کینیڈا میں اور وہ مجھے پاکستان میں MISS کرتا ہے۔ مجھے پوری امید یہے کہ اخی ایک دن اپنے والدین کو قائل کر لے گا کہ وہ واپس کینیڈا آ جائیں۔

میں اپنے اخی سے رشتے کا کریڈٹ اخی کو دیتا ہوں۔ اس نے بہت چھوٹی عمر میں مجھے اپنا دوست چنا۔ جب وہ بہت چھوٹا تھا اور ابھی بات بھی نہیں کر سکتا تھا پھر بھی ہماری PERFECT COMMUNICATION تھی۔ اخی جانتا تھا کہ محبت کی اپنی زبان ہوتی ہے جو الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔ میرا ایک شعر ہے

وہ جس کسی کی بھی آغوشِ جاں کے بچے ہیں

نویدِ صبح ہیں سارے جہاں کے بچے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail