چل دل اک اور عشق کریں


دور آوارگی میں اک نظم لکھی تھی، ”چل دل اک اور عشق کریں“۔ دوست کو نظم پڑھائی۔ اس نے پڑھ کر کہا، ”اچھی ہے، چل پھر کر لیتے ہیں، عشق۔ بتا اب کیا کرنا ہے آگے؟“ اسے حوصلہ دیا کہ آرام سے بیٹھ، بندہ اب گل بات بھی نہ کرے!؟

مجھے اپنی آواز کا بڑا ٹھیک سے پتا ہے۔ بندہ بشر ہوں اس لیے پھر بھی گنگناتا رہتا ہوں۔ احتیاط بس اتنی کرتا ہوں، کہ گانے کا آدھا مصرع ہی، ذرا اونچی آواز میں گاتا ہوں، باقی سر دل میں لگاتا ہوں۔

گانا کوئی پسند آ جائے، تو پھر مسلسل کئی دن تک وہی ٹیپ چلتا ہے۔ گانے والا خواب میں آ کے، منتیں کرنے لگ جاتا کہ بس کر دے بھائی، آیندہ نہیں گاؤں گا۔ تب تک سنتا ہوں، جب تک تشدد کی دھمکی نہ مل جائے، گھر سے؛ پاس پڑوس سے۔

ایک بار عالمی دورے پر پنڈ گیا ہوا تھا۔ عربن کو یاد کرتے آدھے ادھورے مصرِع گاتا رہتا تھا۔ ایک مائی، پتا نہیں کب نوٹ کرنے لگی۔ تیسرے یا چوتھے دن اس نے کہا، ”او آگے بھی گا مر لے، کچھ۔“

آج کل دل کو پھر کسی چیلنج کی تلاش ہے۔ احوال یہ ہے کہ حسب ذائقہ سا کوئی چیلنج، ڈیڑھ دو سمندر پار، ٹی وی اسکرین پر بھی دکھائی دے جائے، اس پر دھیان پڑ جائے، تو ’کوئی‘ پوچھ لیتا ہے، ”بتا ارادہ کیا ہے؟“

اپنے ایک کزن کو اُس کی ماں سے پڑا ہوا جوتا بھی یاد آ جاتا ہے۔ یہ جوتا تب پڑا تھا، جب وہ اپنی شادی کے بعد بھی، حسن کی ویکلی تعریف کر دیتا تھا۔ ماں کا اُڑتا جوتا آیا، سروس ہوئی؛ تب سے اسے مکمل آرام ہے۔ جوتے سے زیادہ اثر اس ڈائلاگ میں تھا، ”اپنی بوتھی دیکھی ہے؟ پسند تیری روز بدل جاتی منحوسا!“

اپن کی پسند کیسی ہے، یہ بتا بتا کر پک چکا ہوں۔ ایسی جیسی کوہ قاف کی پریاں ہوتی ہیں۔

دوستوں کے ساتھ جب پہلی بار دبئی گیا، تب تک روس آزاد ہو چکا تھا۔ یاروں نے روسیوں کی دبئی آمد کا سن کر ہی وہاں جانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ہم سیدھا جا کے ہوٹل کے اس ٹاپ فلور پر لینڈ ہوئے تھے، جہاں کوہ قاف کی پریاں رہتی تھیں۔

یہ وہ زمانہ ہے، جب ہم  دل پر داڑھی رکھے پھرتے تھے۔ موقع، پیسے سب موجود تھا، اور حسن بھی ویسا جیسا پسند تھا۔ ہوا یہ کہ دوست اور روسی سب اک طرف اور اپن دوسری طرف۔ سب تیار تھے اپنے ارمان ٹھنڈے کرنے کو، بس برا یہ ہوا، کہ وسی بابا تب اک ممنوع بور کا مجاہد قسم کا ملا تھا۔

دو کمروں میں سامان رکھ کر کھانا کھا کر واپس پہنچے، تو درجن ڈیڑھ روسی لڑکیاں بھی ہمارے کمروں میں آ گئیں۔ پہلے تو سمجھ نہ آیا، اور دل بھی ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگا۔ پھر جب سمجھ آیا، تو میں نے ان سب کو دونوں کمروں  سے نکال باہر کیا۔

دوستوں نے مجھے قابو کر ہی لینا تھا، کرلیا۔ ایک بزرگ بھی ہمارے وفد میں شامل تھے۔ ان بزرگ کو پچپن سال کی عمر میں دادا نے پیسے دے کر کاروباری دورے پر پہلی بار دبئی بھیجا تھا۔ ان بزرگوں کو اتنا کہنا ہی کافی ہوا، کہ ”نکہ بہ درتا خبر کم“۔ یعنی ”تمھارے دادا کو بتا دوں گا۔“

بزرگ نے سب کو بتا دیا، کہ وہ سب کے گھروں میں خود جا جا کر بتا دے گا، کہ کیا ہوا۔ بزرگ کا اعلان سن کر مشر دل پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسی بزرگ سے کہا، ”بھاگ کر جوس لاو، میں فوت ہونے لگا ہوں۔“ بزرگ جوس لینے گیا، مشر نے آرڈر دیا، ”وسی کو رج کے کٹ لگاو، سارے۔“

سب نے بہترین ”سروس“ کی، وسی بابے کی۔ انجر پنجر اپنی جگہ کردیا۔ بزرگ کی واپس آنے تک ہمارا معاہدہ ہو گیا، کہ یہیں رہیں گے، دیکھنے کی آزادی ہوگی۔ جب کسی کو اس کے اندر کا شیطان زیادہ تنگ کرے گا، تو وہ وسی بابے کو کٹ لگا سکے گا اور وسی کو ان سب کے پیر ویر دبانے ہوں گے۔

روسی پریاں کمرے میں آ جاتی تھیں۔ دوست ان سے معذرت کر لیتے؛ میری طرف اشارہ کرتے، کہ یہ ہمارا مشر ہے۔ اس منحوس کی وجہ سے وہ کوئی ”بہادری“ دکھانے سے قاصر ہیں۔ ایک دن ان لڑکیوں میں سے، ایک نے سب کی طرف سے مجھے ”فری سروس“ کی آفر کر دی۔ یہ سن کر میں نے انھیں ایک بار پھر کمرے سے نکال دیا۔

ہم ٹاپ فلور کے دو کمروں میں رہتے تھے۔ ٹاپ اور نیچے والے دو فلور پر یہ روسی پریاں ڈیرے ڈال کر بیٹھی تھیں۔ ان دو تین فلور کی لفٹ مسلسل ان کے استعمال میں رہتی تھیں۔ میرے ”اعلی اخلاق“ کو ان لڑکیوں نے، یوں داد دی، کہ میرے لیے لفٹ کا استعمال بند کر دیا۔ جب مجھے لفٹ خالی مل جاتی، تو وہ اندر نہ آتیں۔ جب وہ اندر موجود ہوتیں، تو میں پیدل نیچے چلا جاتا۔ وہ الٹا مجھے دیکھ کر اشارے بھی کرتیں کہ جا جا، جا پیدل لفٹ ہماری ہے۔

مشر نے اک دن نہ جانے کیا شرارت کی۔ اک روسی لڑکی نے آ کر مجھے صابن پکڑا کر اک مشورہ بھی دے ڈالا۔ کیا مشورہ تھا، میں نہیں بتانے والا۔

معاہدے کے مطابق ہم لڑکیوں کے کمرے میں آنے پر اعتراض نہیں کرتے تھے۔ بس طے یہ کر رکھا تھا، کہ کوئی بھی پیسے دے کر، ان کی ”سروس“ نہیں لے گا۔ باتیں جس نے جتنی کرنی ہیں، کرتا رہے۔

ایک دن ہمارے ایک ساتھی نے فاؤل پلے کر ہی دیا۔ اس نے اس (صابن دینے والی) لڑکی کی کچھ تصویریں بنا لیں۔ عام سی تصویریں ہی کھینچی گئی تھیں، لیکن جب ڈیولپ ہو کر آئیں، تو ”گڑ بڑ“ موجود تھی۔ جب ہمارے لوٹنے کے دن آئے تو وہ لڑکی تھوڑی تھوڑی دیر بعد کمرے میں آنے لگ گئی۔

اسی دوست کے پاس آتی تھی۔ اس سے اپنے فوٹو واپس مانگتی تھی، وہ دیتا نہیں تھا۔ پتا کرنے پر سمجھ آیا کہ لڑکی کو ڈر تھا۔ (یہ ڈر کیا تھا، یہ کیسے سمجھ آتا، زبان تو جانتے نہیں تھے)۔ اس نے اشاروں کی زبان میں بتایا کہ میرا ایک بیٹا ہے؛ ایک خاوند ہے؛ ایک گھر ہے۔ یہ بتا کر اس نے فوٹو مانگی۔ کچھ سمجھ نہ آیا، یا شائد سب سمجھ آ گیا، میں نے دوست سے فوٹو چھین کر اسے واپس کر دی۔

پندرہ دن اس لڑکی کے وجہ سے میں لفٹ استعمال نہیں کر سکا تھا۔ پھر اس کا بھی یہ خیال تھا، کہ میں نے اس کے گاہک خراب کیے۔ جس دن واپسی تھی، یعنی ہم واپس ہو رہے تھے، اس روز وہ لفٹ میں کھڑی تھی؛ ہمیں دیکھ کر اس نے لفٹ چھوڑ دی۔ ذرا سا جھک کے، سر جھکا کر مجھے سلام کیا۔ میں نے وہیں رُک کر اس سے ہاتھ ملایا؛ اس کے گال تھپتھپائے۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ چل دیا۔

مدت بعد پھر یوں ہوا، کہ ایک دن پہلوان کے ساتھ بیٹھا اپنے حالات پر غور کر رہا تھا، وقت نازک چل رہا تھا، معاش کے رولے، بہت سے دیگر پنگے۔ پہلوان نے ساری باتیں سن کر اعلان کیا، کہ تمھارے تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ منہ کالا کرتے رہا کرو۔ غصہ تو بہت آیا، پھر اس سائنس کی پہلوان سے وضاحت مانگی، اس کی بکواس کا تعلق اپنے مسئلے سے پوچھا۔

پہلوان بولا، ”بہت امیر ہو جاؤ گے، ویرے۔ اک لڑکی، اس کے بعد دوسری، پھر تیسری۔ یہ سب اک نشہ ہے، اک کے بعد اگلا نشہ، ان سب کو حاصل کرنے کی چاہت۔ یہ سب کوئی مفت آنا ہے، یہ ایسے ہی ہو جاتا کیا۔ اس کے لیے تم آئیڈیا سوچو گے، خوب کماؤ گے، خود کو بدلو گے، محنت کرو گے، تم پر پیسا برسنے لگے گا۔“

”پہلوان! تمھیں کس نے کہا مجھے یہ سب چاہیے؟“ پہلوان کے اندر کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی۔
پہلوان کو کچھ عرصے پہلے کسی نے گولی ماری۔ لگتا ہے اپنے سائنسی تجربوں کی قیمت چکائی ہوگی، بھائی نے۔ بچ گیا ہے۔

زندگی میں کچھ اچھی تعریف، جو میری ہوئی، ان میں پہلوان کا اک جملہ بھی ہے۔ میرے ارد گرد ہونے پر وہ خراٹے مار کے سوتا تھا اور ظاہر ہے مجھے وہ زہر لگتا تھا۔ اک دن اس نے کہا، ”ویرے! دشمن دار کو نیند نہیں آتی، تم قریب ہوتے ہو، تو مجھے ہوش نہیں رہتا اور میں خواب بھی دیکھتا ہوں۔“

پہلوان کو میں بتا ہی نہ سکا، کہ  نیند میرا کبھی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ جتنا مرضی سوتے رہو، جب چاہو اٹھ جاو۔ مسئلہ ہو بھی کیسے  !؟ خدا سے کبھی کبھار باتیں جو کرتا ہوں۔ اس سے دوستی لگا رکھی ہے ۔ ہم یادیں تازہ کرتے ہیں۔ اسے بتاتا ہوں کہ کتنے مشکل دن تھے۔ کتنے مزے سے گزار دیے، ہم دونوں نے مل کر۔ کہاں کہاں سے ہو آئے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے تھینکس نہ بولنا، میں ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہوں، کہ دوستی میں کون بولتا ہے۔

پھر وہ کہتا ہے کہ جب تم محبت کرتے ہو، مشکلیں کچھ نہیں کہتیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ پھر اک اور عشق نہ کر لوں؟

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi