سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کمرہ نمبر ایک سے ۔۔۔ بالمشافہ انصاف


ہفتے کی صبح نو بجے ہی سورج آنکھیں دکھارہا تھا، سخت گرمی میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچے تو عدالت کے باہر سینکڑوں سائلین ہاتھوں میں پلے کارڈز تھامے انصاف کے حصول کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کے حق میں فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ ان میں سے اکثر سائلین پولیس کی بے حسی اور عدم تعاون کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ سپریم کورٹ رجسٹری لاہور کے کمرہ نمبر ایک کی راہداریوں میں عدالت لگنے سے پہلے ہی پولیس، بیوروکریسی، ڈاکٹرز، اساتذہ اور عام سائلین کا جیسے ہجوم امڈ آیا تھا۔ وہ اساتذہ جو عموماً کلاسوں میں بھی تاخیر سے پہنچتے ہیں، آج وقت مقررہ سے بھی آدھا گھنٹہ پہلے کمرہ نمبر ایک کے مرکزی دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید شدید گرمی میں بھی سوٹ میں ملبوس اپنے عملے کے ہمراہ ادھر ادھر منڈلا رہے تھے، اسی اثنا میں ہماری نظر سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد پر پڑی، جو کالا کوٹ پہنے ایک رفیق کار کے ساتھ مشاورت کرتے دکھائی دیئے، سلام دعا ہوئی تو استفسار کیا کہ آج خیریت سے آئے ہیں؟ کہنے لگے جی ہاں! آج ہی تو قدرے خیریت ہے ہمارے لئے۔ بحثیت وزیر گاڑی رکھنے کے استحقاق کے معاملے پر پیش ہوئے ہیں۔ پوچھا انتخاب تو نہیں لڑ رہے پھر؟ کہنے لگے جی نہیں! کوئی ارادہ نہیں۔

کورٹ روم میں گئے تو احساس ہوا کہ عدالت کے لا آفیسرز آنے والوں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، چھت پر نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس کی نشست کے بالکل سامنے لٹکے تین فانوس بہت عمدہ کوالٹی کے ہیں، لیکن غور سے دیکھا تو کل اٹھائیس بلبوں میں سے آٹھ بلب غائب تھے۔ بہر حال ساڑھے دس بجے جب عدالت لگی تو کمرہ نمبر ایک میں تل دھرنے کی بھی جگہ باقی نہ تھی۔اصغر خان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیس، بیوروکریٹس اور دیگر افسران کے زیر استعمال استحقاق سے بڑی گاڑیاں استعمال کرنے سے متعلق از خود نوٹس کیس، سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر کی تقرریوں کا کیس، ریلوے خسارہ از خود نوٹس کیس، غیر متعلقہ اشخاص کو اضافی سکیورٹی دینے کے خلاف از خود نوٹس کیس، اسپتالوں کی حالت زار بارے از خود نوٹس کیس، اسپتالوں کے فضلہ جات کو ٹھکانے لگانے سے متعلق از خود نوٹس کیس اور جعلی پولیس مقابلے میں قصور کے مدثر نامی شہری کی ہلاکت کا کیس کاز لسٹ میں شامل تھے۔

 اصغر خان کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو مخاطب کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ پاکستان میں نہیں تھے اس لئے کل پیش نہ ہوسکے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اٹارنی جنرل صاحب ذرا اونچی آواز میں بولیں، مائیک کے قریب آکر بولیں۔ اشتر اوصاف جو قدرے سست دکھائی دے رہے تھے فوراً چوکنا ہوئے اور مدعا بیان کرنا شروع کیا اور اصغر خان کیس میں کابینہ کے فیصلے سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس بارے کابینہ نے کیا فیصلہ کیا تھا؟ اشتر اوصاف نے کہا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ اس کیس میں متعلقہ افراد کے خلاف مناسب کاروائی کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیس میں دوطرح کے لوگ ہیں، ایک سویلین اور دوسرے وہ جن کا تعلق ملٹری سے ہے۔ سویلین افراد کے خلاف ایف آئی اے پہلے سے ہی کام کر رہی ہے کہ کس سیاستدان نے انیس سو نوے میں کتنے پیسے وصول کئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن چند لمحوں کے لئے آپس میں مشاورت کرتے دکھائی دئیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ یہ لوگ تو کہتے ہیں انہیں کچھ نہیں ملا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ رقم کس نے دی ؟ کتنے اافراد کو دی؟ لینے والے کون کون ہیں؟ اشتر اوصاف نے بتایا کہ مجموعی طور پر اکیس لوگوں کو رقم تقسیم کی گئی۔ عدالت نے مزید کہا کہ رقم دینے والے کون کون ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سول اور ملٹری افراد کے خلاف کاروائی اکٹھی کیوں نہیں ہو سکتی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے فوج کے متعلقہ حکام کو لکھا جا چکا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے رپورٹ دیکھتے ہوئے ا س کیس میں نامزد افراد کے نام پکارنا شروع کئے کہ اس میں جنرل (ر) اسد درانی، جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ، نواز شریف، عابدہ حسین اور جاوید ہاشمی کے نام ہیں اور جاوید ہاشمی تو کہہ چکے ہیں کہ رقم لی گئی تھی۔ آپ کے ہاں ان افراد کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے جھجک سی کیوں محسوس ہوتی ہے؟ اس سے پہلے کہ اشتر اوصاف کچھ مزید کہتے چیف جسٹس نے حکم جاری کیا کہ عدالت عظمیٰ نواز شریف، عابدہ حسین، جاوید ہاشمی سمیت 21 سویلین، اسد درانی سمیت کیس سے متعلقہ آرمی افسران اور ڈی جی نیب اور ایف آئی اے کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 6 جون تک ملتوی کرتی ہے۔

 یاد رہے کہ سابق ایئر مارشل مرحوم اصغر خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا کہ انیس سو نوے کے انتخاب میں آئی جی آئی کے سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی گئیں۔ اس سلسلے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اپنے ایک بیان حلفی میں کہہ چکے ہیں کہ سیاسی رہنماوں میں یہ پیسے مہران بنک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے۔سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

اب ذکر پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کیس کا، جس میں ڈاکٹر سعید اختر رفقا کے مشورے کے باوجود مستعفی ہونے کو تیار دکھائی نہیں دے رہے۔ عدالتی کاروائی شروع ہوتے ہی چیف جسٹس نے اس کیس کو سننے سے پہلے ابتدا ہی میں استفسار کیا کہ سعید اختر تشریف لائے ہیں؟ ڈاکٹر سعید اختر جو کورٹ روم میں بائیں جانب پہلی قطار میں تھے ،کھڑے ہوئے اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے چیف جسٹس کو کہا کہ جی وہ عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ بتائیں آپ چیمبر میں کیوں مجھے سے ملنا چاہتے تھے ؟ سعید اختر نے کہا وہ اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو وضاحت کرنی ہے کورٹ میں کریں۔ دیگر کیسزز کی سماعت کے بعد جب پی کے ایل آئی کیس کی باری آئی تو ڈاکٹر سعید اختر روسٹرم پر آتے ہوئے قدرے نروس دکھائی دئیے۔ چیف جسٹس نے برہمی سے استفسار کیا کہ آپ نے بیس ارب روپے اس ادارے کی تعمیر پر خرچ کر دئیے کیا آپ کو کنسٹرکشن کا تجربہ ہے؟ آپ کے حوالے سے ہمارے پاس شکایات کا پلندہ ہے۔ آپ ٹی وی چینلز پر پروگرام کرواتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے آپ کن صحافیوں سے رابطے کرتے ہیں اور پیسے دے کر ان سے اپنے حق میں بات کرنے کی سفارشیں کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے دائیں جانب پڑی دو فائلیں اٹھائیں، ہوا میں لہراتے ہوئے انہیں ڈاکٹر سعید اختر کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈاکومنٹس لے جائیں اور ان میں پوچھے گئے تمام سوالات کے جوابات لے کر کل دوبارہ عدالت میں آئیں۔ آپ کو لگ پتہ جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کے خلاف تو آپ کے اپنے ادارے کے ملازمین شکایات کر رہے ہیں، آپ منتظم ہونے کے ناطے ان کی شکایات کا ازالہ کرنے کی بجائے ان سے ملاقات کرنے سے بھی انکاری رہتےہیں۔ آپ کے ٹرانسپورٹ افسر ندیم اختر کی شکایت ہم تک پہنچی ہے۔ آپ نے اس سے بھی ملاقات نہ کی۔ ہم آپ کا فرانزک آڈٹ کرائیں گے۔ ڈاکٹر سعید اختر کچھ کہنے لگے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کتنی تنخواہ وصول کرر ہےہیں؟ ڈاکٹر سعید اختر نے کہا وہ اس ادارے سے بارہ لاکھ روپے تنخواہ کی مد میں وصول کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی اہلیہ کتنی تنخواہ لے رہی ہیں۔ ڈاکٹر سعید اختر نے کہا کہ انکی اہلیہ آٹھ لاکھ روپے وصول کر رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قوم کے پیسے سے بیس لاکھ روپے ایک ہی گھر میں جا رہا ہے۔ کیا آپ کی اہلیہ اس ادارے میں نوکری کے لئے کوالیفائیڈ ہیں؟ سعید اختر نے کہا کہ جی میری اہلیہ کوالیفائیڈ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا میں سمجھاوں گا کہ کیسے آپ کی اہلیہ کوالیفائیڈ نہیں ہیں۔ یہ مجاہد شیر دل کس حیثیت سے پی کے ایل آئی میں کام کر رہے ہیں؟ ڈاکٹر سعید اختر نے بتایا کہ وہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سی ای او ہیں۔ اور آٹھ لاکھ تنخواہ وصول کررے ہیں۔

چیف جسٹس کے استفسار پر معلوم ہوا کہ مجاہد شیر دل تقریبا دس لاکھ وصول کر رہے ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئےڈاکٹر سعید اختر سے کہا کہ مجاہد شیر دل جب اسسٹنٹ کمشنر تھے تو ایک لاکھ روپے لیا کرتے تھے اب دس لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں۔ آخر یہ اندھیر نگری کس کھاتے میں جائے گی؟ آپ کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے گا۔ آپ کا احتساب ضرور ہو گا۔ آپ کل بورڈ آف ڈائریکٹرز کے میٹنگ منٹس لے کر آئیں۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ میں لگی تصاویر بدلی ہیں یا نہیں ؟ جس پر ڈاکٹر سعید اختر نے کہا کہ جی بدل دی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس حیثیت میں آپ نے شہباز شریف کی تصاویر ادارے میں جگہ جگہ آویزاں کر رکھی تھیں؟ سعید اختر نے بتایا کہ وہ ادارے کے پیٹرن ان چیف ہیں اس لئے ان کی تصاویر لگائی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بابائے قوم اور علامہ اقبال کی جگہ آپ نے وزیر اعلی کی تصاویر لگا ئیں، جس نے آپ کو چوغہ پہنایا اسی کی تصاویر لگا دیں۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم ہمارے پیٹرن ان چیف ہیں انہی کی تصاویر لگائیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami