اسمبلیوں میں مرد اور خواتین ممبران کی تعداد برابر کیسے ہو


پاکستان میں مرد حضرات کا راج ہے۔ اسمبلیوں کے اندر بھی ویسی ہی صورت حال ہے جیسی کہ باہر۔ اسمبلیوں کے اندر کی صورت حال کو بہتر بنانے یعنی خواتین کی تعداد اور ان کا اختیار بڑھانے کے لیے کئی نیم دلانہ سی کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کے لیے ہر اسمبلی میں کوٹہ مقرر کیا گیا۔ یہ نہ ہونے سے بہتر تو تھا لیکن ظاہر ہے بہت موثر نہیں تھا۔ خواتین ممبران کو یہ شکایت رہتی کہ انہیں کوٹہ سسٹم کا طعنہ دیا جاتا ہے اور اہم معاملات پر ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔

جنرل پرویز مشرف نے خواتین کی سیٹوں میں معقول اضافہ کیا تو اس کے کافی اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ خواتین کی تعداد کافی معقول تھی اس لیے انہیں حوصلہ ہوا اور وہ کچھ اثر ڈالنے کے قابل ہوئیں۔ خواتین ممبران نے پارٹی لائن سے آگے بڑھ کر ”وومن کاکس“ بنائے اور انسانی حقوق سے متعلق بہت سے ایسے مسائل کو سامنے لائیں جو مرد حضرات کے لیے اہم نہیں ہوتے تھے۔ انسانی حقوق کا دفاع اور عوامی وکالت کا کام کرنے والے سوشل ورکرز جانتے ہیں کہ ”وومن کاکس“ کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کے انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر لوگوں کی آواز کو اسمبلیوں تک پہنچانا کافی ممکن ہو گیا تھا۔ لہذا خواتین ممبران کی تعداد بڑھنے سے صورت حال کچھ بہتر تو ہوئی لیکن خواتین ممبرز کی شکایت پھر بھی رہی کہ اہم معاملات پر ان کی شنوائی کم ہے اور براہ راست منتخب ہو کر آئے ہوئے ممبران انہیں ”کوٹہ سسٹم“ کا طعنہ بھی دیتے ہیں۔ تو پچھلی اسمبلی نے بھی قوانین میں کچھ مزید تبدیل کی۔

اب نئے قانون کے تحت ہر پارٹی پر لازم ہے کہ وہ پانچ فیصد حلقوں میں خواتین کو ٹکٹ دیں تاکہ براہ راست منتخب ہونے والی خواتین کی تعداد بڑھ سکے اور ان کی آواز اہم معاملات اور فیصلوں میں سنی جائے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ پارٹیوں کے پاس اس کا بڑا آسان حل بھی ہو گا۔ وہ ان حلقوں میں خواتین کو ٹکٹ دیں جہاں سے ان کے جیتنے کا کوئی چانس نہیں ہو گا۔ اس سے براہ راست منتخب ہونے والی خواتین کی تعداد بڑھنے کا کوئی خاص امکان نہیں ہے۔ خواتین کی تعداد بڑھانے اور اسمبلیوں میں اہم معاملات پر ان کی آواز کو مضبوط اور موثر بنانے کے لیے بہت واضح اور دلیرانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسے میں ایک تجویز دے رہا ہوں۔

خواتین و حضرات کی تعداد تمام منتخب اسمبلیوں میں برابر ہونی چاہیے۔ الیکشن کا ایک طریقہ ایسا ہو سکتا ہے جس سے ہر منتخب اسمبلی میں خواتین و حضرات کی تعداد برابر ہو جائے گی۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے یہ لازم کر دیا جائے کہ ہر حلقے میں پارٹی ٹکٹ ایک شخص کی بجائے ایک جوڑے (pair) کو دیا جائے۔ اس pair میں ایک مرد ایک خاتون ہو۔ لہذا اکیلے شخص کی بجائے ووٹ بھی جوڑے کے لیے ہی ہو گا اور جیتے گا بھی جوڑا۔ اس طرح ہر حلقے سے ایک جوڑا منتخب ہو کر آئے گا جن میں ایک خاتون اور ایک مرد ہو گا۔ آزاد امیدوار کو بھی اکیلے الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو بلکہ ان پر بھی لازم ہو کہ وہ بھی جوڑوں کی صورت میں ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ اس طرح سے اسمبلی میں خواتین اور حضرات کی تعداد برابر ہو جائے گی اور ہوں گے بھی سارے کے سارے براہ راست منتخب۔ اس سے ہماری اسمبلیوں میں جینڈر بیلنس ہو جائے گا۔

اسمبلیوں کی صورت حال کو مزید بہتر بنانے کے لیے کچھ اور تجاویز یہ ہو سکتی ہیں کہ ایک جوڑے کی صورت میں الیکشن لڑنے والی خاتون اور مرد آپس میں رشتہ دار نہیں ہونے چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نمائندگی مل سکے۔ جوڑا صرف الیکشن کی حد تک رہے اور الیکشن کے بعد دونوں ممبران بالکل آزادی سے کام کریں اور ایک دوسرے پر ان کا انحصار نہ ہو۔ اگر ایسا ہو جائے تو خواتین ممبران اسمبلیوں اور اس ملک کی قسمت کو بدلنے میں، مردوں کے شانہ بشانہ، اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

منتخب اسمبلیوں میں یونین کونسل، تحصیل کونسل، ضلح کونسل، صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینٹ سبھی شامل ہیں۔

اس ساری تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام پاکستانی خواتین کو ووٹ دینے کا حق مل سکے کیونکہ وطن عزیز میں ابھی بھی کئی ایسے علاقے ہیں جہاں عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانون بنانا مشکل نہیں ہے لیکن بدنیتی آڑے آتی ہے۔ اگر یہ قانون بنا دیا جائے کہ کوئی بھی ایسا پولنگ سٹیشن جس پر خواتین کے ووٹ دس فیصد سے کم نکلیں اس کے سارے ووٹ مسترد کر دیے جائیں گے۔ تو یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ پھر کہیں بھی خواتین کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جا سکے گا۔
خواتین کے ووٹ دینے کے حق اور تمائندگی کو یقینی بنانا قومی ترقی سے لیے انتہائی اہم ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik