اردو اور ہندی کا مشترک لفظیاتی سرمایہ


انسان میں بہت سی جبلی کمزوریاں موجود ہیں۔ ان میں ایک عصبیت بھی ہے۔ یہ کمزوری انفرادی ہونے کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کا روپ بھی دھارن کرتی ہے۔ ابن خلدون نے قومی وملی تحفظ کے لیے اس صفت کو ایک مثبت قدرخیال کیاہے۔ یہ صفت اپنی انتہا کو پہنچ کر خود غرضی حق تلفی، ظلم و نا انصافی اور انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بنتی ہے تو متوازن و معتدل رہ کررسم و رواج، عقیدے و ضابطے کی پاسداری اور زبان و ادب کے تحفظ کا موجب بھی۔ عصبیت بے جا لسانی تطہیر اور تہذیبی تنقیح پر بھی آمادہ کرتی ہے، اس کی مثال ہم سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ لیکن اسی انتہا پسند عصبیت سے بڑی سچائی انسانی ضرورت اور تہذیبی و لسانی تقلیب کے نتیجہ لازم ہونے والی آسان و مشترک ترسیل کی نا گزیریت ہے جس کا عملی ثبوت ہمیں اردو ہندی کے لفظیاتی اشتراک میں ملتا ہے۔ کہنے کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دو زبانیں جو عرصہ دراز تک باہم دست و گریبان رہی ہوں، ان کے م ¿ویدین نے استرداد کا طوفان بپا کیا ہو، حمایتیوں نے ایک دوسرے پر یلغار و یورش کی روش اختیار کی ہو، پرستاروں نے السنہ عالم میں افضل زبان باور کرایا ہو، اسی پر بس نہ کیا ہو بلکہ ایک دوسرے کی خامیوں کے بیان میں خامہ فرسائی کو مبالغہ و مغالطہ کی انتہا سے جا ملایا ہو، ایسی دو زبانوں کے ما بین لفظیاتی اشتراک کو تلاش کرنے کا جواز کیا ہو سکتا ہے ؟ ہم اس جواز کی تلاش کواس بحث کا بنیادی نکتہ فرض کر سکتے ہیں۔ نزاع و مخاصمت کا وجود ہی بذات خود اس بات کا بین دلیل ہوتا ہے کہ کوئی وجہ و علت ایسی ہے جس پر طرفین کے دعوائے استحقاق نے اس صورت کو جنم دیا ہے اور جب دعویدار نام نہاد سگی بہنیں ہوں تو امر واقعہ کی سنگینی کا اندازہ بحسن و خوبی کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہی خطہ ارضی کو اپنا پتی پرمیشور ماننے سے ہی اس صورتحال نے جنم لیا ہے۔ قبل اس کے کہ ہم اردو ہندی کے مشترک لفظیاتی سرمایہ کی بحث کو آگے بڑھائیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قدر مشترک کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ان کے مابین موجود دوئی کے تناظر کو بھی ایک نظر دیکھ لیں۔ کیوں کہ جب ہم ان زبانوں کے اولین تشکیلی عہد تک پہنچتے ہیں تو امتیاز کے سارے حدود و قیود تقریبا اٹھ جاتے ہیں جو ان دو زبانوں کو مستقل لسانی حیثیت عطا کرتے ہیں۔

 لسانی تفرقہ اور دوئی کا قصہ نو آبادیاتی عہد سے شروع ہوتا ہے۔ اس عہد میں مذہبی احیاءپرستی جس کا نشو نما استعمار کی نگرانی میں ہوا، سے جو دو تہذیب اساس مہابیانیے وجودمیں آیے، ان ہی کی کوکھ سے وفاقی تہذیب کی جگہ وحدانی تہذیب کے تصور نے جنم لیا جو کہ بر صغیر کے مزاج و مذاق سے با لکل بھی موافقت نہیں رکھتا تھا۔ اس تصور نے زبان کو بھی انتہا پسندی کی طرف مائل کیا اور راجواڑوں اور کو ٹھیوں سے لسانی فرقہ واریت کے نعرے بلند ہونے شروع ہوئے۔ اس سلسلے میں جاگیرداروں اور راجاﺅں کے متعصب کردار نے مشترک لسانی ورثہ کو نا قابل بیان زک پہنچائی۔ اسی طرح احیاءپسند تعلیمی و اصلاحی تحریکات واداروں نے بھی زبان کا مصنوعی تانا بانا بننے میں حصہ لیا۔ باوجود اس تہذیبی و لسانی اشتراک مخالف سرگرمی کے اردو ہندی کی مشترک لفظیات و عناصر باقی و قائم رہے کہ زبانیں منصوبے اور اداروں کی پابند نہ ہوکر عوا م کی بول چال سے اپنا ہیولیٰ تیار کرتی ہیں۔ جب اردو ہندی کے لفظیاتی سرمائے پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں بڑی مقدار میں وہ الفاظ ملتے ہیں جو اردو ہندی کی مشترکہ میراث ہیں۔

 اردو زبان کی نمایاں خصوصیت اس ہندوستانی روح کی ترجمانی ہے جو کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت سے عبارت ہو کر مشترکہ تہذیب اور وسیع المشرب انسان دوست فکر و عمل کی نشو نما کرتی ہے، لفظیاتی سرما یہ میں یہ نقطہ نظر ادبی تخلیق اور تحریری سر گرمی کی مختلف سطحوں پر عمل پیرا نظر آتا ہے۔ چہ جائیکہ ماضی قریب کے اردو ہندی لسانی تحریکات کے موئدین نے لسانی وسیع المشربی کے بجائے لسانی تطہیر کے رویہ کو ترجیح دی اور زبان کی تشکیل میں کار فرما مختلف تہذیبی، تاریخی و لسانی عوامل سے سر مو انحراف کیا۔ رام چندر شکل، بھارتیندو ہریش چندر اور راجہ لکشمن سنگھ وغیرہ نے زبان اور لفظیات کے سلسلے میں جو نقطہ نظر اختیار کیا وہ سنسکرت کی طرف شدید میلان اور فارسی سے احتراز کے رویہ کا موجب ہوا اور با لآخر اردو زبان کو ہندی کی مسلمانی روح باور کراےا گیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں رام چندر شکل کی کتاب ہندی ساہتیہ کا اتہاس اور کامتا پرساد گرو کی کتاب ہندی ویاکرن، صفحہ :33) اسی نوع کی لسانی تطہیر و لفظیاتی پرہیز سنسکرت لفظیات سے وحشت کا رویہ اردو دانوں کے یہاں بھی ملتا ہے۔ اس طرز عمل کے حوالے اردوہندی تنازع پر مبنی فرمان فتح پوری کی کتاب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس نزاعی بحث سے پرے جب ہم واقعی صورتحال پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں اردو ہندی کے ما بین کئی ایسی ٹھوس اور پائیدار بنیادیں ملتی ہیں جو مستقل اور قائم بالذات ہیں، ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔

 اردو ہندی کی لفظیات ہمیں تین سطحوں پر ملتی ہیں۔ افعال، اسماءاور مرکب الفاظ۔ ہندی ماہرین قواعد نے مرکب الفاظ میں لگنے والے لواحقوں اور سابقوں کی بحث میں ودیشی اور سو دیشی کی تقسیم کی ہے اور ودیشی لاحقوں سابقوں میں فارسی و عربی کے لاحقوں، سابقوں کو شامل کیا ہے۔ ایسا کرنے والوں میں اودے نارائن تواری (لاحقوں اور سابقوں کی بحث، ہندی بھاشا کا ادگم امدوکاس میں صفحہ :۲۳۳تک دیکھی جا سکتی ہے )اور بھولاناتھ تواری کے نام اہم ہیں۔ (بھولاناتھ تواری نے ہندی بھاشا کی سنرچنا کے دوسرے باب میں لاحقوں سابقوں سے تشکیل پانے والے الفاظ پر بحث کی ہے )ہندی ویاکرن کے مصنف کامتا پرساد گرو نے اس بحث کا ذکر اردو کے حوالے سے کیا ہے، نیز راجہ شیو پرساد کے پرہیزی لسانی رویے پر اعتراض بھی کیا ہے۔ وہ راجہ شیو پرساد کی لسانی تطہیر کی روش نا مناسب خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ راجہ صاحب کا خیال ہے کہ فارسی الفاظ کا ہندی میں گذر کہاں البتہ لفظ بدلہ کو نہ جانے کیوں متعلقہ فہرست میں درج کیا۔ مصنف نے راجا صا حب کے رویے پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سلسلے میں بات کرنا ہی فضول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لاحقے جن سے اردو لفظیات تیار ہوئی ہیں وہ ہندی میں بھی مستعمل ہیں۔ (ہندی ویاکرن، صفحہ :672)مصنف کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ لفظیات کی سطح پر پر ہیز کرتے ہوئے اگر ہم اردو لفظیات کے منکر ہوتے ہیں تو زبان کی واقعی صورت حال سے صرف نظر کرتے ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

تفسیر حسین
Latest posts by تفسیر حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

تفسیر حسین

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی

tafseer-hussain has 1 posts and counting.See all posts by tafseer-hussain