عورت کے چپ رہنے کی ریت


ہم ریتوں رواجوں کی پاسداری والے لوگ ہیں۔ یہاں کئی قسم کی رہتلیں آباد ہیں۔ لوگ نہیں کیونکہ کئی اقسام کے لوگ یا تو ہم نے مار گرائے یا مار بھگائے۔ الحمداللہ اب سب ایک ہی جیسے ہیں۔ ریت رواج بھی بس دیکھنے میں مختلف ہیں۔ اندر سے وہ بھی ایک ہی ہیں۔

خیر جس ریت کی طرف ہمارا آج کا بلاگ روشنی ڈالے گا وہ شکایت کرنے والی عورت پر ملبہ ڈالنے کی ریت ہے۔ جی یہ بلاگ پچھلے کام کے برعکس کسی بھی قسم کے طنز و مزاح سے مبرا ہے۔ سب لگی لپٹی ہو گی۔ ایک ریت جو عورتوں نے توڑ دی ہے وہ چپ رہنے کی ریت ہے۔

ہمارے ہاں کی عورتیں تو شوہر کی چتا کے ساتھ ہی ستی ہوا کرتی تھیں۔ سسرال والوں کی ہر جائز ناجائز خواہش پر قربان ہوا کرتی تھیں۔ جہیز نہ لانے پر چولہے میں جل کر راکھ ہوا کرتی تھیں۔ شوہر مارے کوٹے یا دوسری عورت سر پر لا بٹھائے، خاموشی سے سہا کرتی تھیں۔ چھت اور روٹی کپڑا کے عوض کسی بھی ظلم و زیادتی کو نہ صرف قبول کرتی تھیں بلکہ اس پر فخر بھی کیا کرتی تھیں۔

خیر اب زمانہ بدل گیا ہے۔ جب سے بیٹیوں کو بوجھ سمجھنا بند کیا گیا ہے تب ہی سے ان کو تعلیم اور شعور سے روشناس بھی کرایا گیا ہے۔ جو لڑکی بھائی کے گڑیا توڑنے پر سیدھی باپ کے پاس شکایت لے کر جاتی ہے وہ اب کسی بھی ظلم کو سہنے کی ریت کو بھی نہیں مان سکتی۔ لیکن خیر یہ تو عورتوں کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔

خیر بھائی سے لڑنا اور ہے۔ معاشرے سے لڑنا اور ہے۔ جو عورت اپنے خلاف ہونے والی زیادتی پر چپ رہنے سے انکار کرے وہ اپنی خیر خود منائے۔ پہلی بات تو یہ کہ اسی پر الزام تراشی کا وہ پہاڑ توڑا جاتا ہے کہ باقی عورتیں بھی سبق حاصل کریں۔ اس کی شنوائی تو کیا ہونی ہے، الٹا اسی کو جھوٹا گردانا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے پاس عورت کو ذلیل کرنے کا سب سے بڑا حربہ اس کے کردار کی دھجیاں اڑانا ہے۔ سب سے پہلا قدم تو وہی ہوتا ہے۔ اس کو طرح طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ الزام کو صریحاً رد کر دیا جاتا ہے۔ اس قدر مغلظات برسائے جاتے ہیں کہ یہ دکھ بھی اس کی تکالیف میں بڑی تسلی سے شامل کر دیا جاتا ہے۔

کل سے سوشل میڈیا پر ریحام خان کی کتاب کے حوالے سے کم اور ان کے کردار کے حوالے سے زیادہ چرچا ہے۔ انہوں سے خود کو دی جانے والی دھمکیوں پر سے پردہ اٹھایا تو اس پر یہ طوفان مزید تیز ہو گیا۔ ریحام کے ساتھ ویسے بھی جو کچھ صبح شام ہم نے سوشل میڈیا پر ہوتے دیکھا ہے اس کا سامنا انہی کی ہمت ہے۔ میشا شفیع کے ساتھ جو سلوک باقی عوام نے کیا وہ بھی کون سی پرانی بات ہے۔ یہ تو خود مختار مضبوط عورتوں کی کہانی ہے۔ عام عورت کا سوچئے کیا حال ہو گا۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے ہماری نظروں سے ایک تشدد کا واقعہ گزرا۔ لڑکی نے میاں کی شکایت کی تو الٹا اسی کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔ تم نے کچھ کیا ہو گا، جو اس نے ہاتھ اٹھایا۔ لڑکی الٹا پچھتائی کہ اس سے تو اچھا تھا، مار ہی کھاتی رہتی۔

معاشرہ بدل تو ضرور رہا ہے لیکن ابھی یہ بدلاو صرف اپنی بیٹی کے لئے آیا ہے۔ آپ کی بیٹی کی گڑیا اس کا بھائی تک نہ توڑے لیکن کسی اور کی بیٹی (یہ نسبت صرف وضاحت کے لئے دی گئی ہے ورنہ عورت خود بھی ایک انسان ہے) جس دن اپنی بات بیان کرے وہ بدکردار، بدچلن، بدزبان ہے۔ اس کی زبان کاٹ دی جائے۔ اس کی ایسی کی تیسری!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).