اوریا مقبول جان عورتوں کا بے حد احترام کرتے ہیں


ہر پاکستانی جانتا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے احترام کا پرچم بلند کرنے والوں کی فہرست میں ڈاکٹر اسرار احمد کا نام نامی بہت بلند درجے پر آتا ہے۔ خوش قسمتی سے عمران خان کی بے مثال قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب کے ممکنہ نگران وزیر اعلی کے لیے جو فہرست پیش کی اس میں شامل یعقوب طاہر اظہار کا تعلق ڈاکٹر اسرار احمد کے خانوادے سے ہے۔ اس طویل اور کسی قدر مبہم فہرست میں اوریا مقبول جان کا نام بھی جگمگا رہا ہے۔ اوریا مقبول جان عورتوں کے بارے میں اخلاق حسنہ کی بہترین تصویر ہیں۔ عورتوں کے بارے میں اوریا مقبول جان کے نیک اور مخلصانہ خیالات تاریخ کا حصہ ہیں۔

عورتوں کو جلسے جلوسوں میں شریک نہیں ہونا چاہئیے۔

پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کی خبریں آئیں تو اوریا مقبول جان نے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر ببانگ دہل رائے دی کہ پاکستانی عورتوں کو سیاسی اجتماعات میں شریک نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ پاکستانی سیاست غیر اسلامی ہے، سیاسی جلسے جلوسوں میں عورتیں محفوظ نہیں ہوتیں۔ ایسے غیراسلامی اجتماعات میں اگر ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے یا انہیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایاجائے تو وہ اس کے لیے خود ذمہ دار ہیں۔

اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ عورت کا صحیح مقام یہی ہے کہ وہ گھر کی چار دیواری میں رہے اور بچے پالے۔ اگر وہ شادی شدہ نہیں ہے تو اسے شادی کا انتظار کرنا چاہئیے کیونکہ ہر حالت میں اس کے لیے مثالی جگہ گھر کی چاردیواری ہے۔ گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں اس کے ساتھ جو بھی سلوک ہو، اس کی ذمہ داری عورت پہ عائد ہوتی ہے۔

اوریا مقبول جان کے کچھ حاسد ناقدین کہتے ہیں کہ ان کی اپنی اہلیہ نے برسوں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ملازمت کی ہے جب کہ ان کی دختر نیک اختر دنیا کے بدترین معاشرے یعنی امریکہ میں تعلیم پا رہی ہیں۔ تاہم اوریا مقبول جان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ہر اصول میں استثنیٰ کی گنجائش ہوتی ہے۔ اوریا مقبول جان جیسی بلند و بالا، باکردار، باصلاحیت  اور نابغہ روزگار شخصیت کی اہلیہ اور دختر کو استثنیٰ کا درجہ ملنا چاہئیے۔

اوریا مقبول جان کو عورت کی جسمانی خصوصیات سے سخت نفرت ہے

ہم سب جانتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی جسمانی خصوصیات مختلف ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں اوریا مقبول جان عورتوں کی جسمانی ساخت کے سخت ناقد ہیں۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جنس مخالف کی جسمانی خصوصیات سے اس قسم کی شدید نفرت حد سے بڑھی ہوئی نفسانی خواہش اور اور اپنے افعال پر اختیار سے بالا حساسیت سے پیدا ہوتی ہے۔

پاکستان میں بہت سے لوگوں کو یاد ہے کہ ایک موبائل فون کے اشتہار میں کرکٹ کھیلنے والی لڑکی کی شبیہہ دیکھ کر اوریا مقبول جان اخلاقی جامے سے باہر ہو گئے تھے۔ انہوں نے عرق ریزی سے تحقیق کے بعد نشاندہی کی کہ کھلاڑی خاتون کے رن اپ ایکشن میں فحاشی اور اشتعال انگیزی کے عناصر شامل تھے۔ ان جیسے صاحب علم کے لیے یہ نتیجہ نکالنا ناگزیز تھا کہ مذکورہ اشتہار کی کاپی لکھنے والے اور عکاسی افراد نے جان بوجھ کر اس اشتہار میں فحاشی شامل کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جو عورتیں اپنے باپ کی مرضی کے بغیر گھر سے باہر نکلتی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

اوریا مقبول جان نے تحفظ نسواں قانون کی سخت مخالفت کی؛

اوریا مقبول جان کا دعوی ہے کہ وہ برسوں شادی شدہ جوڑوں کو ازدواجی مشورے دیتے رہے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے ہر موضوع کی طرح انہیں عورتوں کے تحفظ کے بارے میں مسودہ قانون پر رائے زنی کا بھی حق حاصل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دنیا کے تقریبا تمام ترقی یافتہ ملکوں میں گھریلو تشدد کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہر چوتھی عورت کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے کسی قانون کی ضرورت نہیں جہاں عورتوں کے لیے پہلے سے بہت زیادہ تحفظ موجود ہے۔

مارچ 2017ء میں عورتوں کے تحفظ کا مسودہ قانون پیش کیا گیا تو اوریا مقبول جان نے ارشاد فرمایا کہ اس قانون سے شوہر اور بیوی کے نجی معاملات کی تفصیل افشا ہو گی چنانچہ شادی کا تقدس برقرار نہیں رہےگا۔

سات سالہ معصوم زینب کے قتل پر اوریا مقبول جان کا تبصرہ:

سال رواں کے آغاز میں قصور کی سات سالہ بچی زینب کے ریپ اور قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے اوریا مقبول جان نے کہا کہ اس واقعے کا ذمہ دار میڈیا ہے۔ میڈیا عورتوں کو ایسے لباس میں دکھاتا ہے کہ مردوں کے جذبات قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔ مرد اندھا دھند ریپ اور قتل کر رہے ہیں۔

اوریا مقبول جان کا موقف تھا کہ زینب کے ریپ اور قتل کی ذمہ داری قاتل پر نہیں بلکہ خود اس بچی پر اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔

ملالہ یوسف زئی کا طالبان کا حملہ جعلی ڈرامہ تھا۔

دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ بچی ملالہ یوسف زئی پر اکتوبر 2012 مین حملہ ہوا تھا۔ اوریا مقبول جان کا موقف ہے کہ ملالہ یوسف زئی کا ہورا معاملہ ہی ایک من گھڑت ڈرامہ تھا۔ نہ تو گل مکئی کی ڈائری اس نے لکھی تھی اور نہ اس پر طالبان نے حملہ کیا تھا۔ انہوں نے نوبل انعام کو بھی ایک بے معنی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے انعام کو ٹھوکر مارتے ہیں نیز یہ کہ ملالہ اس انعام کی مستحق نہیں تھی۔

عاصمہ جہانگیر کی موت پر اوریا مقبول جان کا ردعمل؛

لاہور کے علی انسٹیٹیوٹ میں مولانا مودودی کے صاحبزادے مولانا حیدر فاروق کی موجودگی میں اوریا صاحب نے پیپلز پارٹی کی ایک خاتون راہنما کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کیے۔ اس پر عاصمہ جہانگیر نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ انسانی حقوق کی نڈر رہنما عاصمہ جہانگیر پاکستان کے قدامت پسند اور آمریت پسند حلقوں کی آنکھ مین کانٹے کی طرح چبھتی تھیں۔

فروری 2018 میں عاصمہ جہانگیر کی وفات کے موقع پر اوریا مقبول جان نے کہا کہ “وہ بہت ہی مختلف طرح کی خاتون تھیں، اب وہ مرنے کے بعد اسی خدا کے پاس پہنچ گئی ہیں جس سے انہیں زندگی بھر اختلاف رہا۔ (یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خدا اور عاصمہ جہانگیر کے باہمی اختلافات کے بارے میں اوریا مقبول جان کی اطلاعات کا ماخذ کیا تھا؟) انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ اب خدا عاصمہ جہانگیر کے ساتھ جو سلوک چاہے کرے وہ اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

میشا شفیع اور علی ظفر کے جھگڑے میں حسب توقع اوریا مقبول جان کود پڑے اور انہوں نے خاتون گلوکار کے بارے میں نہایت نازیبا کلمات ادا کیے جس پر پیمرا نے سخت نوٹس لیا۔

اوریا مقبول جان عورتوں کے حقوق کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں دوران جنگ گرفتار ہونے والی غیر مسلح عورتوں کو جنسی غلام بنانے کی کھلی حمایت کی ، ان کے میزبان نے یہ سوال کیا کہ جب پاکستانی افواج نے رن آف کچھ میں ہندوستان کو شکست دی تو کیا ہمارے فوجیوں کے لیے اس علاقے کی عام عورتوں کو ریپ کرنا قانونی اور اخلاقی طور پر جائز تھا۔ اوریا مقبول جان نے آنکھ جھپکے بغیر کہا، بالکل اس کی اجازت ہے۔ میزبان نے سوال کیا ، کیا آپ اسے اخلاقی اصول اور جنگی اخلاقیات کی خلاف ورزی نہیں سمجھتے؟ اوریا صاحب نے کہا کہ ان عورتوں کو بہر صورت ریپ توہونا تھا، تو کیوں نہ انہیں اعلانیہ طور پر لونڈیاں قرار دے کر اپنے گھروں میں لایا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).