چیف جسٹس اور شہباز شریف: ٹھنڈے کمرے میں گرماگرم مکالمہ


پنجاب کی چھپن کمپنیوں میں مبینہ کرپشن کے حوالے سے از خود نوٹس کیس میں آج جب اربن پلاننگ اور ڈویلپومنٹ کمپنی کے سربراہ ڈاکٹر ناصر جاوید سے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سوال کیا گیا کہ آپ لاکھوں روپے تنخواہ کس مد میں وصول کر رہے ہیں؟ آپ سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا تو ناصر جاوید نے کہا کہ میں یہ رقم واپس نہیں کر سکتا ، میرے پاس وسائل نہیں۔ میں خود کشی کر لوں گا۔ تو اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کو ان پیسوں کا حساب دینا پڑے گا، خود کشی کرنی ہے تو کریں۔ بلائیں صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو تاکہ ان سے پوچھ سکیں کہ آخر کس قانون کے تحت پنچاب کے چھپن کمپنیوں میں چیف ایگزیکٹوز اور دیگر افسران کا لاکھوں روپے اور مراعات دی جا رہی ہیں۔

چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف دو بجے تک عدالت عظمی میں پیش ہوں گے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے دیگر مقدمات کی سماعت کی اور دو بجنے سے پندرہ منٹ پہلے استفسار کیا کہ شہباز شریف کہاں ہیں؟ اس پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ وہ ایک پچپن پر پیش ہو جائیں گے۔ مفاد عامہ کے دو مقدمات کی سماعت جاری تھی کہ شہباز شریف روایتی براون سفاری سوٹ پہنے عدالت پہنچ گئے۔ چیف جسٹس کے سامنے دائیں جانب پہلی قطار میں ایڈوکیٹ جنرل پنجاب عائشہ حامد اور چیف سیکرٹری پنجاب کپٹن (ر) زاہد سعید نے ان کے لئے سیٹ خالی کی۔ ہم پاس ہی چیف جسٹس صاحب کے بنچ کے نیچے کھڑے کارروائی رقم کررہے تھے۔ شہباز شریف بیٹھتے ہی روایتی انداز میں منہ پر ہاتھ رکھ کر کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ پہلی قطار میں کچھ نشستیں خالی تھیں۔ ایک بزرگ باریش شہری وہاں پہلے ہی سے بیٹھا ہوا تھا۔ شہباز شریف جیسے ہی اس قطار میں براجمان ہوئے وہ بزرگ شہری عملے کے اشارے سے اٹھ کر چل دیا۔

مفاد عامہ کا ایک کیس سننے کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں ہیں شہباز شریف صاحب؟ انہیں بتایا گیا کہ وہ پیش ہو چکے ہیں اور کمرہ عدالت میں تشریف رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آگئے آپ کے ایکس چیف منسٹر؟ چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے چیف جسٹس کو بتایا کہ وہ فی الحال کرنٹ چیف منسٹر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں ، کرنٹ ہی آ جائیں۔ شہبا ز شریف روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس نے کہا، کیسے ہیں آپ میاں صاحب؟ آپ کچھ ‘سٹریس’ میں دکھائی دے رہے ہیں؟ شہباز شریف نے کہا کہ میں خیریت سے ہوں۔ آپ کا حکم موصول ہوا، میں حاضر ہو گیا۔ میرے لئے اس کورٹ میں حاضر ہونا اعزاز کی بات ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ شہباز شریف صاحب آپ کے کچھ معاملات ایسے ہیں جس پر آپ سے وضاحت درکار ہے۔ قومی خزانہ آپ کی امانت ہے۔ وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ جناب چیف جسٹس !قومی نہیں پنجاب کا خزانہ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پنجاب میں چھپن کمپنیاں بنا دیں، یعنی آپ نے اداروں کا کام ‘آوٹ سورس’ کر لیا، نظام کا کیا بنا پھر؟ ان کمپنیوں کے نتائج کیا تھے، اسے چھوڑیں، ایک صاحب جن کا تعلق اٹھارہویں یا انیسویں گریڈ سے ہے، انہیں آپ نے کارپوریٹ سیکٹر میں لا کر لاکھوں تنخواہ دینا شروع کر دی، حالانکہ ان کی ذہنی استعداد بہتر ہوئی نہ کارکردگی۔ جو شخص پہلے ایک لاکھ تیس ہزار تنخواہ وصول کر رہا تھا اسے آپ نے دس لاکھ دینا شروع کر دئیے۔ آپ کسی کی ‘باوئنٹی’ تو نہیں دے رہے۔ چیف منسٹر صاحب ! آپ تو شاید کم ٹیکس دیتے ہوں لیکن تنخواہوں پر گزارا کرنے والے بہت زیادہ ٹیکس دیتے ہیں، پی کے ایل آئی میں مجاہد شیر دل کس حیثیت اور کس قانون کے تحت دس لاکھ روپے تنخواہ کے مد میں وصول کررہے ہیں؟

اس پر وزیر اعلی پنجاب چیف جسٹس سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ آپ کا بہت شکریہ آپ نے آج ایک بار پھر مجھے یاد کیا۔ شہباز شریف تمہید باندھنے لگے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ شہبا ز شریف صاحب! یہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ایک ایک پائی ریکور کرنی ہے۔ ہر اس شخص سے جس نے بھاری تنخواہ وصول کی یا جس نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ شہباز شریف نے کہا اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اپنا مدعا بیان کروں۔ چیف جسٹس نے انہیں بولنے کا موقع دیا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami