ریحام نے کچھ نیا نہیں لکھا


منو بھائی کہا کرتے تھے کہ اگر ان کی اور محمد علی (باکسر) کی لڑائی ہو جائے اور کچھ دیر بعد لوگ چھڑوا کر مقابلہ برابر قرار دے دیں تو جیتا کون؟ ظاہر ہے منو بھائی۔ آ ج کل ریحام خان کی کتاب پر، جو ابھی منظرعام پر نہیں آئی، بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف والے اور مخالفین کتاب کا سرورق تک دیکھے بغیر یوں باہم دست و گریباں ہیں جیسےرستم اور سہراب کے مابین مقابلہ ہو رہا ہو۔ بھولا کانا کہا کرتا ہے کہ، ”جب سر پر سایوں کا ہاتھ ہو تو تھوک سے بھی دیے جل جاتے ہیں“ یعنی جب ارباب اقتدار ساتھ ہوں تو تھوک سے بھی دیے جل جاتے ہیں۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ریحام خان کتاب میں کیا ایسا نیا لکھ دیں گی جو خان صاحب کے بدگمانوں کو پہلے سے معلوم نہیں مثلاً یہ کہ خان صاحب جب بچوں کی سیر کا بہانہ کر کے مری عازم سفر تھے اور ریحام خان کے فون پر جھوٹ بولنا پڑا کہ دیرینہ دوستوں (ٹونی وغیرہ) کے ساتھ نہیں ہیں اور یہ کہ پنکچر لگوا رہے ہیں لیکن محترمہ شاید زیادہ معلومات رکھتی تھیں جو جھگڑے کا باعث بنی۔ پھر یہ لکھا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہےاور پاؤڈر سونگھ کر بتا سکتے ہیں کہ پت مار ہے یا کیڑے مار۔ کسے نہیں پتہ کہ خان صاحب موج مستی کے لیے کوئی بھی اہم وقت چن لیتے ہیں اور ساری جذب و مستی چند پھونک مارکہ دھاگوں اور سربریدہ سریوں ( بکروں کی) پر قربان کر سکتے ہیں۔ ویسے انسانی سریوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے بشرطیکہ طالبان برانڈ ہو۔

ریحام خان کر کیا سکتی ہیں۔ پورے ملک کی خواتین خواہ وہ خان صاحب کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں ریحام کو ایک چڑیل ہی سمجھتی ہیں اور یقین کیجیے ایسے ایسے الزامات گھڑتی ہیں کہ خدا کی پناہ! انٹیلی جنس ایجنسیز کی آلہ کار ہے، بلیک میل کر کے شادی کی، بیچارہ خان دھوکہ میں آ گیا، پارٹی کو ہائی جیک کرنا چاہتی تھی، پارٹی کی اے ٹی ایمز کو فلم بنانے کے لیے استعمال کر رہی تھی، شادی کی آڑ میں پاکستان دشمنی کی مرتکب تھی، خان صاحب کی بہن کا بازو فریکچر ہوا تو گاڑی نہیں بھیجی، دروازوں کے پیچھے چھپ کر کچھ ”بد ترینوں“ کو طلاق پر قائل کرتے سنا۔

شاہین صہبائی سمیت بہت سے پرلے درجے کے صحافی بیڈ روم سٹوریز لکھنے پر لعن طعن کر رہے ہیں حالانکہ یہاں بھی کوئی نئی بات نہیں۔ سرفراز نواز تو بہت پہلے کہ چکا ہے کہ عمران خان ایک خطرناک جنسی بیماری کا شکار ہے۔ بدخواہ تو یہ الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے کہ ماروی میمن کے پاس خان صاحب کی حالت غیر میں تصویر بھی ہے۔ ” ڈھانپا، کزن نے داغ عیوبِ برہنگی / میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا“۔ تحریک انصاف والے کہہ سکتے ہیں کہ ”اصل اور فطری حالت تو یہی ہے ہر انسان کی، کپڑے تو سماج پہنا دیتا ہے“۔

ایسی ہی دور کی کوڑی لائی جاتی ہے خان صاحب کے ہر بودے کام کو جواز بخشنے کےلیے۔ ایک صاحب تو یہاں تک کہتے کہ اگر خان صاحب کسی  سے تمتع کرتے ہیں تو اسے فخر کرنا چاہیے۔ کچھ نہیں کر سکتی ریحام خان۔ بدنام کرنے کو زیادہ سے زیادہ یہ لکھ ماریں گی کہ خان صاحب گھر میں لڑکیاں لاتے تھے تو آپ انبساط خان کو بھول گئے جو الزام لگاتی تھی کہ خان صاحب اس کے بیڈ روم میں لڑکیاں لاتے تھے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ نہیں پتہ کہ لانے اور آنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ زیادہ سے زیادہ کیا لکھ دیں گی ریحام خان کہ خان صاحب اوپر سے جتنے طاقتور نظر آتے ہیں اندر سے اتنے ہی کمزور ہیں اور بیڈ روم میں اکثر جمائما کو یاد کرتے ہیں۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ جمائما خان کے جو احسانات ہیں خان صاحب پر اگر نہ ہوتے تو بہت سے پارٹی لیڈران کی بیویاں وہی شکایت کرتیں جو انبساط نے کی تھیں۔ بیویاں تو ویسے ہی شوہروں کے دوستوں کو برداشت نہیں کرتیں۔ آپ سب بھی اس بات کے گواہ ہیں لہذا یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔

یہ الزام بھی لگ سکتا ہے کہ خان صاحب ریحام کے ساتھ ہوتے ہوئے کسی اور کے خیال میں گم ہوتے تھے اور اس گمشدگی میں خود سپردگی کے احساس تلے ان کے جذبات کی قدر نہ کر پاتے۔ یہ بہت ہی بھونڈا الزام ہو گا کیونکہ خان صاحب ایک بار کوئی مقصد حاصل کر لیں تو آ گے بڑھتے ہیں، کسی نئی اور حسیں امنگ کی طرف۔ اگر خان صاحب ایک جگہ رکنے والے ہوتے تو آ ج کہیں بیٹھے کمنٹریاں کر رہے ہوتے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ریحام کے خیال میں بنی گالہ کا ماحول اس قابل نہیں تھا کہ وہاں رہا جا سکتا۔ کچھ تو ہو گا جس کی پردہ داری ہو گی۔

پنکی پیرنی جی کی کرامات کا ذکر بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ریحام پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ سریاں اور تعویذ ملتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ریحام یہ لکھ سکتی ہیں کہ خان صاحب بڑے کنجوس ہیں اور اپنی ذات پر بھی پلے سے پیسہ نہیں خرچ کرتے۔ یہ بھی کوئی نیا الزام نہیں کیونکہ طلاق دینے سے پہلے ہی ایک ٹی وی انٹرویو میں خان صاحب نے ریحام کے سامنے کہا تھا اگر ریحام نے دس ہزار کا سوٹ مانگا تو وہ اسے طلاق دے دیں گے۔ بڑا ہی بودا الزام یہ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب ریحام کی تقریروں سے جل گئے تھے۔ حالانکہ خان صاحب جیسی تقریر تو ریحام کر بھی نہیں سکتی۔ اس قابل ہوتی تو اب تک ایسی خرافات بولتی خان صاحب کے بارے میں کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا انصافی بھائیوں کو۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خان صاحب ریحام کے بچوں کو چند دن سے زیادہ بنی گالا میں برداشت نہیں کر سکتے تھے، صرف امیر زادوں کو قریب رکھتے تھے، بیرونی فنڈنگ کا غلط استعمال کرتے تھے، معاشی طور پر کمزوروں کو کارنر کرتے تھے، چند خاص دوستوں کے ساتھ عیاشی کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے الزامات بھی پرانے ہیں۔ یہ کہنا کہ شہباز شریف نے کتاب کے لیے فنڈنگ کی ہے بہت ہی فضول الزام ہے کیونکہ خان صاحب نہ ہوتے یا مصاحب بن کر اتراتے نہ پھرتے تو شاید نواز شریف کھڈے لائن نہ لگتے اور شہباز وزارت عظمی کے خواب نہ دیکھتے۔ انصافی بھائیوں کو اطمینان رکھنا چاہیے کیونکہ انداز بیاں بات بدل سکتا ہے ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).