سینیٹر کرشنا کماری کا انٹرویو


fbt

پاکستان کی نو منتخب سینیٹر کرشنا کماری کی زندگی کی داستان۔
کرشنا کماری کوہلی نے سوشیالوجی میں ماسٹر ڈگری لے رکھی ہے۔ وہ ہمت اورجذبے سے مشکلات کا دریا عبور کرنے والی خاتون ہے۔ بچپن میں تین سال تک وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک مقامی بانڈد لیبرکے سرخیل زمیندار کی جیل میں قید رہی۔ تین سال بعد پولیس کے ایک چھاپے میں اس خاندان کو رہائی ملی تو کرشنا کماری کو بانڈد لیبر کے سرپرستون سے نفرت ہوگئی۔ اس نے عمر کوٹ اور پھر میر پور خاص سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ ابھی پندرہ برس اور چند ماہ کی تھی جب اس کی 1994میں شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد بھی اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور بانڈد لیبر لینے والے ظالم طبقے کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہی۔ 2013 میں کرشنا کماری نے یونیورسٹی آف سندھ سے سوشیالوجی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

سندھ کے غریب ترین اور مفلوک الحال علاقے تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری نے اپنے جیسے غریبوں کی ترجمانی کے لئے پیپلز پارٹی کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔ بہت جلد وہ بلاول بھٹو، بختاور اور ان کی چھوٹی بہن کے قریبی دوستوں مین بھی شامل ہوگئی۔ کرشنا کماری کا شوہر سندھ کے محکمہ زراعت میں افسر ہے۔ وہ بھی ان دنوں زراعت کے شعبہ میں پی ایچ ڈی کر رہاہے۔ کرشنا کماری کی تین بہنیں ہیں جو بد قسمتی سے تعلیم حاصل نہیں کرسکیں۔ اس کے دو بھائی ہیں ایک بھائی نے ایل ایل بی اور دوسرے نے سوشیالوجی میں ماسٹر ڈگری لے رکھی ہے۔ کرشنا کماری کے ایک بھائی ویر جی کوہلی پیپلز پارٹی کی طرف سے بلدیاتی انتخابات میں چئرمین بھی بنے۔ ان پر ایک مقامی شخص صالح شورو کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلا اور عدالت نے اسے عمر قید سنادی۔ کرشنا کماری کے سینیٹر بننے سے ایک روز قبل اس فیملی سے صلح نامہ ہوگیا اور کرشنا کماری کا بھائی رہا کردیا گیا۔

12 مارچ 2018 کوکرشنا کماری کوہلی جب پاکستان کی پہلی دلت ہندو سینیٹر بنی تو پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی ان کو بھرپور کوریج دی گئی۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے ان سے قبل بھی ایک ہندو خاتون رتنا بھگوان داس چاولہ پاکستان میں سینیٹر بن چکی ہیں۔ کرشنا کماری کوہلی اقیلتوں کے کوٹہ پر سینیٹر بنی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ان کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ دے کر کر پاکستان کا سافٹ امیج دنیا بھر کے سامنے واضح کیا۔

ہم سب
کیا آپ اپنے گھریلو پس منظر سے آگاہ کریں گی؟ کس طرح مردانے معاشرے میں اپنے آپ کومنوا؟ کن کن پریشانیوں کا سامنا کیا؟
کرشنا کماری
میرا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے۔ میرے والد کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے مجھے پڑھایا۔ ہم ایک وقت کی روٹی کھاتے تھے دوسرے وقت کے کھانے کے پیسے بچاکے تعلیم کے اخراجات کے لئے رقم جمع کرتے تھے۔ اس درمیان مجھے اور میری فیملی کو مختلف پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے علاقے کے ایک زمیندار نے مجھے اسکول جانے سے روک دیا جس کی وجہ سے دوسال میری تعلیم کا حرج ہوا تاہم معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ تہہ پا گئے اور میں نے پھر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔

ہم سب
کیا آپ اُس زمیندار کا نام بتانا پسند کریں گی؟ کیا اُس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے تھا؟
کرشنا کماری
۔ نہیں نام کو رہنے دیں۔ ہاں البتہ وہ بہت با اثر شخص تھا۔

ہم سب
آپ کے والدین نے تو آپ کا مکمل ساتھ دیا۔ کیا آپ کے شوہر نے کبھی آپ کو روک ٹوک کی؟

کرشنا کماری
۔ نہیں میری قسمت اس ماملے میں بھی اچھی ثابت ہوئی۔ میرے سسرال نے میرے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ میرے شوق کے آڑے نہیں آئے۔ ٍ

ہم سب
کیا آپ پاکستان میں اقلیت برداری کے ساتھ پیش آنے والے سلوک کے حوالے سے مطمئن ہیں؟
کرشنا کماری
دیکھیں، پاکستان کے آئین میں اقلیت برداری کے حوالے سے بہترین شقیں موجود ہیں تاہم بدقسمتی سے عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ بھارت میں اقلیت برداری کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان حالات جنگ میں ہے اگر اقلیت برداری دہشت گردوں کے نشانے پر ہے تو اکثریت بھی تو محفوظ نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہپمارے یہاں مسلکی بنیاد پر بھی لوگوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ اس قسم کے واقعات کے حوالے سے ریاست کو برا کہنا مناسب نہیں ہے۔ آج کل لوگوں میں عدم برداشت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے اس قسم کے فسادات اس وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔

ہم سب
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس قسم کے فسادات کی روک تھام کے لئے مائنڈ کاونسلنگ کی ضرورت ہے؟

کرشنا کماری:
بالکل ہے۔

ہم سب
سندھ حکومت نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟
کرشنا کماری:
پاکستان پیپلزپارٹی عوام کی فلاح و بہبود چاہتی ہے اور اس سلسلے میں قابل تحسین امور بھی سرانجام دے رہی ہے۔

ہم سب
آپ کی جماعت نے مائنڈ کاونسلنگ کے لئے کیا کیا؟
کرشنا کماری:
سندھ میں اقلیت برداری پر کہاں حملے ہوتے ہیں

ہم سب
آپ نے فرقہ واریت کی جو بات کی اس پر مائنڈ کاونسلنگ کی بات کی کہ کیا سندھ حکومت اس قسم کے مراکز کا قیام کیا ہے جس کے ذریعے مثبت آگاہی کا شعور بیدار کیا جائے۔
کرشنا کماری:
آپ کو پتہ ہوگا کہ صوبہ سندھ سے زیادہ صوبہ پنجاب میں فرقہ وارایت کے فسادات زیادہ ہیں۔

ہم سب
کیا اقلیت برداری سے تعلق ہونے کی بنا پر کبھی کسی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا؟ آپ نے سیاست کے سفر کا آغاز پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے ہی کیوں کیا؟
کرشنا کماری:
آپ کے سوال کے پہلے حصے کا جواب دیتی ہوں کہ کبھی بھی اس قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی کا انتخاب کرنے کی بینادی وجہ بھٹو صاحب کی اعلی قیادت اور محترم بے نظیر بھٹوکی بہترین رہنمائی تھی۔ محترمہ پاکستان کی خواتین کی رول ماڈل کی صورت میں سامنے آئیں۔ ان کے بعد زرداری صاحب اور بے نظیر کی تصویر بلاول صاحب بھی بہترین طریقے سے پارٹی کو چلا رہے ہیں۔

ہم سب
کیا بھٹو صاحب اور محترمہ کے زمانے کی پیپلزپارٹی ہی زرداری صاحب کے دور والی پی پی ہے؟
کرشنا کماری:
بالکل، پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری بھٹو صاحب اور محترمہ کے افکار کو ہی آگے لے کر چل رہے ہیں۔ اب اسی سلسلے کو آگے لے کر بلاول صاحب چل رہے ہیں۔

ہم سب
کیا آصف زرداری کی طرز سیاست بہترین ہیں یا بلاول صاحب کی؟
کرشنا کماری
دونوں کا ہی طرز سیاست قابل ستائش ہے۔ آصف زرداری صاحب اپنی عمر کے تجربے کی بنیاد پر بہترین کام کررہے ہیں جبکہ بلاول صاحب اپنی نوجوان ہیں مگر وہ اپنے نانا اور اپنی ماں کی سوچ کے بہترین ترجمان ہیں۔ جن کے رہنما ان کے والد آصف زرداری ہیں۔

ہم سب
مردانہ معاشرے میں ایک خاتون ہونے کے ناتے کن کن مشکلات کا سامنا کیا؟
کرشنا کماری:
سردآہ بھرتے ہوئے۔ دیکھیں شاید اس سوال کا جواب تو ہرعورت کا ایک جیسا ہی ہوگا۔ جب میں اسکول میں تھی۔ اُس وقت ہمارے گاؤں میں بہت کم بچیوں کو تعلیم دلانے کا رحجان تھا۔ مردانہ معاشرے میں خاتون کوبرداشت کرنا بہت مشکل عمل ہے۔ اکثر خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ میں نے بھی یہ حالات دیکھیں ہیں۔

ہم سب
سیاست میں آنے کے بعد آپ نے اس سلسلے کوئی اقدامات کیے؟
کرشنا کماری
اپنی پارٹی کے ساتھ ملکر میں نے 2007 سے لے کر 2010 تک اینٹی ہراسمینٹ پر کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ 2010 میں جب شریک چئیرپرسن آصف علی زرداری صدر تھے تو انہوں نے اسے قانون بنا دیا تھا۔

ہم سب
کیا اس کے مثبت نتائج سامنے آئے؟
کرشنا کماری

جی بالکل۔ حیدرآباد میں اچھےنتائج دیکھنے کو ملے مگرمسئلہ یہ ہے کہ کوئی لڑکی یا خاتون ہراساں ہونے کی بات کو واضح نہیں کرتی ہے۔ اسے کبھی خاندانی تقدیس کے پیشں نظر، کبھی نوکری سے ہاتھ نہ دھونے جانے کا خوف یا کبھی بچیوں کی شادیاں نہ ہونے کے ڈر کی بدولت اس قسم کے واقعات کو رپورٹ کرانے سے گریز کیا جاتا ہے۔

ہم سب
آپ کو نہیں لگتا کہ اس سلسلے میں آگاہی کی بہت ضرورت ہے۔
کرشنا کماری
بالکل بہت زیادہ ضرورت ہے۔

ہم سب
آپ کو یاد ہوگا کہ سندھ اسمبلی میں کم عمری کی شادی کے خلاف بل منظور ہوا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اندورن سندھ میں آج بھی یہ امر سرانجام دیا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے پیپلزپارٹی اپنے ہی پاس بل کو کیوں نافذ عمل نہیں کرپائی؟
کرشنا کماری
دیکھیں، آگاہی کی بہت ضرورت ہے۔ ورنہ سب کچھ بیکار ہے۔

ہم سب
آگاہی کون دے گا؟
کرشنا کماری

دیکھیں، ہر بات کچھ وقت مانگتی ہے۔ ابھی کچھ بہتری آئی ہے۔ ہم پُرامید ہیں کہ مزید بھی آئی گی۔

ہم سب
آپ کو نہیں لگتا اس سلسلے میں تعلیم سے آراستہ ہونا بہت ضروری ہے؟
کرشنا کماری
جی بالکل

ہم سب
سندھ حکومت نے تعلیم پر کیا کام کیا؟
کرشنا کماری
صوبائی حکومت ابتدائی تعلیم مکمل فری فراہم کررہی ہے۔ اس کے علاوہ یونی فارم بھی دے رہی ہے۔ بے نظیر پروگرام کے تحت ناصرف تعلیم اور ہنر فراہم کیا جارہا ہے بلکہ وظیفہ بھی دے رہا ہے۔

ہم سب
ویمن ہراسمنٹ کے حوالے سے آپ سینٹ میں آواز بلند کریں گی؟
کرشنا کماری
جی بالکل میں یہ کام پہلے بھی کرتی رہی ہوں۔ میں اور میری پارٹی خاتون پر ظلم و ستم کے شدید مخالف ہے۔

ہم سب
آپ تھری لباس میں سینٹ گئیں اور حلف اٹھایا۔ کیا ہم اس نکتے پر امید ہوجائیں کہ اب تھر کی قسمت بدل جائے گی۔ اب وہاں کوئی بھوک سے نہیں مرئے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتائیں کہ تھر کا بنیادی مسئلہ کیا ہے
کرشنا کماری:
انشا اللہ بہت کام کرنا باقی ہے۔ تھر کا بنیادی مسئلہ تعلیم کا فقدان ہے۔ اللہ نے چاہا تو میں اس خلا کو پُر کرونگی۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).