پاسٹرناک کی اولگا، املتاس کے پھول اور جمہور کا فیصلہ


سورج کی تپش دھرتی کو جھلس رہی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ ملال میں ہیں کہ املتاس پر ان گنت پیلے پھولوں کی بہار چند روزہ ہے، ادھر لکھنے والے کا دل وسوسوں کی سیخ میں پرو کر انگاروں پر رکھ دیا گیا ہے۔ 2018ء عجیب برس ہے۔ غم ہو، خوشی ہو، کچھ تو ہو، فانی بدایونی کو بھی یہی افسوس تھا کہ مغموم نہیں، مسرور نہیں۔ وجہ عرض کیے دیتا ہوں، امید، خوشی، ملال اور زیاں تو کتاب میں لکھے ہیں۔ اور جو ہو رہا ہے وہ کتاب میں مرقوم نہیں۔ دماغ پر دباؤ ڈال کے ایک اچھی خبر یہ ڈھونڈی کہ ناصر الملک نگران وزیر اعظم بن گئے۔ ناصر الملک کی شہرت بہت اچھی ہے۔ بذات خود ان کے انتخاب پر اتفاق جمہوری قوتوں کی کامیابی ہے۔ سوال مگر وہی ہے جو فارسی کے شاعر نے “چہ می کنند” کے تین لفظوں میں رکھ دیا تھا۔ اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں…. یہ جھگڑا افراد کے اچھے یا برے ہونے سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ تاریخ کا سوال ہے۔ چھ ہفتے میں معلوم ہو جائے گا کہ کاغذ کے ٹکڑے پر لگی مہر کا فیصلہ رسائی کا اعزاز پائے گا یا کٹھ پتلی کے پس پشت کارفرما انگلیوں کا نرت بھاؤ بازی جیت لے گا۔ ہمارا ماضی خوشگوار نہیں ہے۔ ہم نے دسمبر 1970ءمیں کاغذ کے ٹکڑے پر اپنی قسمت لکھنا چاہی، ملک کے دونوں حصوں پر مہر لگا دی گئی۔ ووٹ پر نشان انگلیوں سے لگایا جاتا ہے، مہر کے حروف ڈھلے ڈھلائے ہوتے ہیں اور انہیں نادر شاہی فرمان سے ثبت کیا جاتا ہے۔

1970ء کے بعد سے ہمیں ووٹ سے فیصلہ کرنے کا حق نہیں ملا۔ البتہ ہماری پشت پر حکم ناموں کی مہریں پے در پے داغ کی گئیں۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ نصف صدی تک اس ملک کے رہنے والے کاغذ کے پرزوں پہ فرمان امروز پڑھتے رہے ہیں۔ دل ناصبور میں خدشہ کھٹک رہا ہے کہ شاید 2018 میں کاغذ کے ٹکڑے پر نشان بساط بچھانے والوں کے نقشے سے مختلف ہو جائے۔ یہی وسوسہ بلوچستان کی اسمبلی سے ایک قرارداد کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ راولپنڈی کے بقراط عصر کہتے ہیں کہ انتخابات میں تھوڑی بہت تاخیر سے آسمان ٹوٹ نہیں پڑے گا۔ عمران خان بھی نئے پاکستان کے لئے فوری فیصلے کے لئے بے تاب نہیں ہیں۔ اچھی بات یہ کہ نگران وزیر اعظم 25 جولائی کو عام انتخابات کے انعقاد کی نوید دے چکے۔ ایک پریس کانفرنس پیپلز پارٹی نے کی ہے اور انتخاب میں التوا کی مخالفت کی۔ ایک بیان شاہد خاقان عباسی نے اسی مضمون کا دیا ہے۔ میاں نواز شریف نے خبردار کیا ہے کہ کچھ عناصر انتخابات کے التوا کی جستجو میں ہیں۔ اس نغز بیانی پر گرہ البتہ ملک کے چیف جسٹس نے لگائی ہے کہ انتخابات پچیس جولائی ہی کو ہوں گے۔ گویا التوا کی زمین میں بوئے گئے بیج بن کھلے مرجھا گئے۔ اشارہ بہرصورت مل گیا کہ بساط بچھانے والوں کے مہرے کچھ ٹھیک نہیں بیٹھ رہے۔ بطریق حجت کچھ مہلت مانگی گئی تھی، مستجاب نہیں ہو پائی۔ غداری کا فتیلہ بھی رنجک چاٹ گیا۔ غنیم سے ایک جملے کی شتابی چھوڑی گئی تھی۔ درانی سرکار نے پورا توپ خانہ پھونک ڈالا۔ آرٹلری والے ہیں، پورس کے ہاتھی یاد دلا دیے۔ مشکل یہی ہے کہ اور بستی نہیں ، یہ دلی ہے۔ اب 1990 کے بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں۔۔۔ اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی۔ 25 جولائی میں کل ملا کے پچاس روز باقی رہ گئے۔ نسیم جاگو، کمر کو باندھو، اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے۔

آئیے آپ کو محبت اور آمریت کی ایک حکایت سنائیں۔ اس میں ان کے لئے نشانیاں ہیں جنہوں نے محبت کی۔ صاحبان سلوک نے یہی بتایا ہے کہ آمریت کا تریاق محبت میں ہے۔ آمریت محبت سے خوفزدہ ہوتی ہے۔ روس کا بورس پاسٹرناک 1890 میں پیدا ہوا۔ ستائیس برس کی عمر میں انقلاب دیکھ لیا، ہمارے دیس میں رہنے والوں نے انقلاب، جنگ، قحط اور خانہ جنگی کا تجربہ نہیں دیکھا۔ اس لئے ان بڑے بڑے لفظوں میں بچوں جیسی دلچسپی دکھائی دیتی ہے۔ نومبر 1997 میں درویش جرمنی کے ان منطقوں کی خاک چھان رہا تھا جہاں بوخن والڈ کا عقوبت خانہ قائم کیا گیا تھا۔ لکھنے والا عارف اقبال بھٹی کے جنازے کو کندھا دے کے ملک سے باہر گیا تھا اور اذیت میں تھا۔ اسی ذہنی کیفیت میں بوخن والڈ میں کم سن بچوں کے جوتوں کا دھیڑ دیکھا تو جملہ لڑھکا دیا، “ہم بھی ان دنوں اپنے ملک میں فسطائیت کے تجربے سے گزر رہے ہیں۔” ساتھی نوجوان لائپزگ یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈاکٹریٹ کر رہا تھا۔ ٹھٹھک گیا، کہنے لگا، “فسطائیت ایک بہت ہی خوفناک انسانی تجربہ ہے، جبر کی ہر صورت کو فسطائیت نہیں کہا جا سکتا۔ بہتر ہو گا کہ اب کوئی قوم اس آزمائش سے نہ گزرے”۔ بات پاسٹرناک سے چلی تھی۔ 1934 میں مینڈل سٹام نے سٹالن پر ایک نظم لکھ کر پاسٹرناک کو سنائی۔ پاسٹرناک نے نظم سن کر مینڈل سٹام سے کہا، “تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ یہاں کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ نظم تم نے سنائی نہیں اور میں نے سنی بھی نہیں۔ اس قصے کو یہیں ختم کر دو”۔ لیکن، خبر نکل گئی۔ مینڈل سٹام گرفتار ہو گیا، پاسٹرناک اپنے شاعر دوست کی جان بخشی کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ ایک دن اسے کریملن سے ایک فون کال موصول ہوئی، بتایا گیا کہ کامریڈ سٹالن آپ سے بات کریں  گے۔ سویت یونین کا عظیم مارکسی لیڈر جوزف سٹالن پاسٹرناک سے کہتا ہے، سنا ہے تم مینڈل سٹام کے بارے میں ہمدردانہ خیالات رکھتے ہو۔ پاسٹرناک کو معلوم تھا کہ سٹالن اس انتقامی اور ایذا پسند نفسیات کے زیر اثر بات کر رہا ہے جو آمریت کی تنہائی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس نے ٹالنے کی کوشش کی۔ ایک استہزائیہ قہقہے کے ساتھ سٹالن نے کہا، “تو یوں کہو نا کہ تم میں اپنے دوست کی کھلم کھلا حمایت کرنے کی ہمت بھی نہیں”۔ سٹالن ایک شاعر کی بے بسی سے لطف کشید کر رہا تھا۔

Osip Mandelstam

پاسٹرناک کی محبوب عورت اولگا کو سٹالن نے دس برس تک گولاگ کے قید خانے میں رکھا، مقصد یہ تھا کہ فنکار کو اس خیال سے حتمی اذیت دی جائے کہ وہ آزاد ہے اور اس کی محبوبہ سائبیریا کے برفانی جہنم میں محبت کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ بہت سا وقت گزر گیا اور سٹالن مر گیا۔ 1957ء میں پاسٹرناک کا ناول ڈاکٹر ژواگو شائع ہوا تو خروشچیف بہت ناراض ہوا۔ پھر خروشچیف معزول ہو گیا۔ اور وقت کاٹنے کے لئے ماسکو کے پارک میں اسی بینچ پر آ کر بیٹھا کرتا تھا جہاں پاسٹرناک نے مینڈل سٹام سے کہا تھا کہ تم نے یہ نظم سنائی نہیں اور میں نے سنی نہیں۔

Pasternak-and-Olga

یہ ساری باتیں آج اس لیے یاد آئیں کہ ہم نے ایک اور جمہوری معیاد مکمل کر لی۔ ایک اور انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے۔ ایک دریا کے پار اترے ہیں اور ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ کئی ہفتے قبل سوال کیا تھا کہ اکتوبر 2018ءمیں کیا ہو گا، سوال اب بھی وہی ہے۔ 19 جولائی 1947 کو ملک کی آزادی کا قانون منظور ہوا تھا۔ 25 جولائی 2018ء کو عوام کی آزادی کا فیصلہ ہو سکے گا یا نامعلوم نمبر سے بورس پاسٹرناک کو دھمکی آمیز فون موصول ہوتے رہیں گے۔ کچھ خبر پلڈاٹ نے دی ہے۔ کچھ پیشگوئی اکانومسٹ نے کی ہے مگر اہم یہ کہ ملک کے اندر جمہوری سوچ انتخاب کا بروقت انعقاد چاہتی ہے اور نئے پاکستان کی تعمیر کا وعدہ کرنے والے انتخاب کے التوا کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پاکستان میں التوا کی تاریخ ناخوشگوار ہے۔ پھر شکوہ کرو گے کہ املتاس کے پھولوں کی بہار تو چند روز کا منظر نکلی۔ کیوں نہ وقت پر جمہور سے فیصلہ لے لیا جائے کہ نیا باندھو رے کنار دریا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).