فوج اور ریاست میں فرق سمجھنا ضروری ہے


پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے آج مختلف موضوعات پر پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے۔ میڈیا سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی باتوں کے بارے میں رپورٹنگ پڑھ کر آسانی سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرز گفتگو سے واضح ہو تا ہے کہ فوج کیوں ملک کے سیاسی امور میں بولنے اور رہنمائی کرنے کے قابل نہیں ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے جن معاملات پر گفتگو کی وہ سارے سیاسی معاملات ہیں لیکن فوج کے ترجمان کو ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کوئی حجاب مانع نہیں ہؤا، ملک کے کسی قانون یا آئین نے ان کا راستہ نہیں روکا اور نہ ہی فوجی ضابطہ اخلاق نے انہیں پابند کیا کہ وہ غیر محتاط سیاسی گفتگو کرنے کی بجائے صرف ان امور تک محدود رہیں جن پر فوج کا براہ راست مؤقف آنا ضروری ہے۔ حالانکہ میجر جنرل آصف غفور نے اسی فوجی ضابطہ اخلاق کا حوالہ دیتے ہوئے اسی پریس کانفرنس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے بارے میں یہ واضح کیا ہے کہ فوج اپنے سابق اور حاضر سروس اہلکاروں یا افسروں کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتی۔ اس لئے انہوں نے اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ اسد درانی کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیں اور اس کا نتیجہ جلد قوم کے سامنے آجائے گا۔

میجر جنرل آصف غفور کی باتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فوج اسد درانی کو عبرت کا نشان بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ لیکن حیرت ہے جس ضابطہ اخلاق پر اس قدر فخر کیا جارہا ہے، صرف اسد ددارنی کی طرف سے اس کی نام نہاد خلاف ورزی پر ساری ادارہ جاتی صلاحیت کیوں صرف کی جارہی ہے۔ 1947 سے لے کر آج تک فوج کے ان سب کرداروں کے بارے میں بات کرنے یا اعترافات کرنے کی روایت کیوں قائم نہیں ہو سکتی جو علی الاعلان فوج کے ضوابط کے علاوہ ملک و قوم سے کیا ہؤا عہد بھی پامال کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سابق جنرل تو اب بھی دوبئی میں بیٹھ کر یہ دعویٰ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا کہ وہ پاک فوج کا دس برس تک سربراہ رہا ہے اور فوج ہمیشہ اس کی پشت پر کھڑی رہے گی۔ پرویز مشرف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسے اسی فوج کے ایک دوسرے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نے ملک سے فرار ہونے میں مدد فراہم کی تھی۔ حیرت انگیز طور پر اس قسم کے انکشافات فوج کے اخلاقی اصولوں کو متاثر نہیں کرتے اور ان باتوں کو ذاتی خیالات کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

اسی طرح اسد درانی اور اجیت سنگھ دلت کی کتاب کے حوالے سے ہی بات کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا یہ کہنا کہ اسد درانی وہی صاحب ہیں جو اصغر خان کیس میں بھی ملوث تھے۔ یعنی اگر برس ہا برس کی عدالتی کارروائی کے بعد کسی ایک معاملہ میں سیاست میں فوج کی مداخلت سپریم کورٹ میں ثابت ہو جائے تو فوج بطور ادارہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور بہادری سے یہ تسلیم کرنے کی بجائے کہ اس قسم کی غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں جو پاک فوج کے دامن پر داغ کی مانند ہیں۔۔۔ اس کا ذمہ دار ایک فرد کو قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب فوج کے لئے یہ بات جائز ہوجائے کہ فوج او ریاست میں فرق کرنے کی بجائے ان دونوں کو ایک ہی تصویر کے دو رخ بتایا جائے تو فوج اور ریاست ہم معنی ہو جاتے ہیں۔لیکن جب فوج کے اعلیٰ ترین افسروں کی نگرانی میں ملک کے جمہوری نظام میں مداخلت کا الزام ثابت ہو جاتا ہے تو ایک فرد کو اس کا قصور وار کہہ کر فوج خود کو بطور ادارہ اس تنازعہ سے باہر نکالنے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کرتی۔ لیکن اب پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہے اور سیاست میں فوج کا کردار اتنی صورتوں میں سامنے آچکا ہے کہ اس قسم کی زبانی صفائیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل صورت حال پوری قوم کے سامنے ہے اور میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس سے بھی اس کا کھلم کھلا اظہار ہؤا ہے۔

 اس پریس کانفرنس کا واضح پیغام چند فقروں میں بیان کیا جاسکتا ہے: ’ فوج غلطیوں سے پاک ادارہ ہے۔ جب بھی کوئی غلطی ہوتی ہے تو اس میں سیاست دان ملوث نہ ہو تو کسی فرد نے اس کا ارتکاب کیا ہوگا۔ فوج ہی دراصل ریاست پاکستان کا دوسرا نام ہے اس لئے فوج خود اپنے خلاف کسی قسم کی کسی تنقید کو برداشت نہیں کرے گی۔سیاست فوج کا میدان نہیں ہے لیکن اس سے متعلق سب امور میں فوج نہ صرف مداخلت کرتی رہی ہے بلکہ وہ اب بھی ایسا کرنے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کرتی‘۔

نہ جانے ملک کا کون سا ادارہ فوجی ترجمان کے اس بیانیہ کی گرفت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ایک بات طے ہونی چاہئے کہ فوج پاکستانی ریاست کے نظام میں جائز اور آئینی حکومت کے فیصلوں پر عمل کرنے والا ایک ادارہ ہے۔ فیصلے کرنے کی مجاز بہر صورت حکومت ہوتی ہے، فوج کو ان احکامات پر عمل کرنا ہے۔ فوج نہ ان احکامات پر چوں و چرا کرسکتی ہے ، نہ ان کے اچھے یا برے ہونے پر فیصلہ صادرکرسکتی ہے اور نہ ہی انہیں ماننے سے انکار کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ طے کیا جائے ریاست کیا ہے، اس کا مفاد کیا ہے اور اسے کیسے اپنا انتظام چلانا ہے۔

یہ فیصلہ کرنے کا اختیار فوج کی بجائے ملک کی پارلیمنٹ کو منتقل ہو۔ جب تک یہ اختیار فوج کے پاس رہے گا اور جب تک وہ ریاستی مفاد کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے ملک کے عوام کے جذبات سے کھیلتی رہے گی، اس وقت تک یہ سمجھا جاتا رہے گا کہ فوج ملکی سیاست سے کنارہ کشی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس لئے یہ گمان یا تفہیم تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ فوج ہی ریاست کا دوسرا نام ہے۔ اگر اب بھی یہ اہم کام نہ کیا جاسکا تو پاکستان کو فوج کے موڈ اور اس کے عوام کو فوجی قیادت کی مرضی کاتابع ہو کر رہنا پڑے گا۔ ان حالات میں انتخابات، جمہوریت اور عدل کا بول بالا ، غیر اہم اور بے مقصد نعروں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali