Yes me too!


شیکسپیئر نے کچھ لازوال مکالمے تخلیق کئے ہیں، ان میں سے ایک ہے،

You too, Brutus?

”یعنی تم بھی بروٹس؟“جی ہاں بروٹس۔ بروٹس جو جولیئس سیزر کا دوست تھا۔ وہ بھی پارلیمنٹیریز کے ساتھ مل کر سیزر پر حملہ آور ہوا اور جب سب نے ایک ایک خنجر کا وار سیزر پر کیا تو بروٹس نے بھی اپنے دوست کو خنجر گھونپ دیا۔اس موقع پر جب زخمی سیزر کی نظر بروٹس پر پڑی تو حیرت سے اس کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا۔

You too, Brutus?

یعنی

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

معلوم نہیں جب ضیاءالحق کا جہاز تیزی سے زمین کی طرف آ رہا تھا تو جنرل صاحب کے ذہن میں کیا خیال تھا۔معلوم نہیں کہ جب اندرا گاندھی گولیوں سے چھلنی راشٹر پتی بھون سے متصل اپنے دفتر کے درمیانی باغ کی راہداری کی زمین پر پڑی تڑپ رہی تھیں تو ان کے ذہن میں کیا خیال تھا۔ معلوم نہیں کہ جون ایف کینیڈی نے جب گولی کھا کے آخری سانس لئے تب وہ کیا سوچ رہے تھے مگرکہیں نہ کہیں ان سب دماغوں میں یہ شہرہ آفاق مکالمہ، یہ بے مثال جملہ ضرور کوندا ہو گا۔

You too, Brutus?

مگر اب You too کا نہیں Me too کا زمانہ آ گیا ہے۔ شیکسپیئر کے اس آفاقی جملے کا اگر کوئی جواب ہے تو بس یہی ہے، Me too۔

مگر سوال یہ ہے کہ اس میں بروٹس کون ہے؟ اور اس کا شیکسپیئر کی اِس عظیم ٹریجڈی سے کیا تعلق ہے ؟ اب گوروں کے مسائل تو گورے ہی جان سکتے ہیں۔ ہم تو پیٹ بھر کر کالے ہیں اور کبھی کسی گورے ملک جانے کا اتفاق بھی نہیں ہوا۔ یورپ بس استنبول کی حد تک دیکھا ہے۔ سوچا تھا کہ بلغاریہ کی سرحد دیکھ آئیں تو بس اڈے (Autogar) پر ہی پاسپورٹ دیکھ کر منع کر دیا گیا کہ پاکستان کے باشندے اس قابل نہیں کہ یورپی ملک کی سرحد دیکھنے کی بھی سعادت حاصل کر سکیں۔ خیر ہم گوروں کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ جن چار پانچ سے ہماری ملاقات ہوئی ان سب کے ساتھ تصویر کھنچوانا ہم نے ہمیشہ ضرور سمجھا ہے۔ گورے بڑے اخلاقی لوگ ہوتے ہیں۔ کبھی تصویر کھنچوانے میں برا نہیں مناتے۔ جبکہ ہمارے ملک کے ”برگر“ اس کے برخلاف بڑے عجیب لوگ واقع ہوئے ہیں۔ جب ہم ماسٹرز سال آخر میں تھے تو ہمارے ایک معصوم گلگتی دوست نے پکنک پر ہماری کلاس کی چند برگر لڑکیوں سے فرمائش کی کہ وہ ان کے ساتھ تصویر کھنچوانا چاہتے ہیں۔ ان لڑکیوں نے بے چارے کو بری طرح ڈانٹ دیا۔ خیر اصل گورے بالکل ایسے نہیں ہوتے۔ مگر بات کہیں سے کہیں جا رہی ہے۔ بات تو اتنی سی تھی کہ ہم گوروں کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے کہ ہم کالے ہیں، ان کے دلوں میں یہ Me Too کا سُر کیوں اٹھا ہے یہ ہماری فراست سے بہت اونچی بات ہے مگر ہمارے یہاں یہ بخار کیوں اٹھ رہا ہے، یہ بات ہم کسی حد تک ضرور سمجھتے ہیں اور خاص طور پر حال ہی میں میشا شفیع صاحبہ کے علی ظفر صاحب پر لگائے گئے الزام کے ذیل میں تو بات بالکل ہی صاف ہو گئی ہے۔

اس ضمن میں پھر اپنا ماسٹرز کا زمانہ نہ جانے کیوں یاد آ رہا ہے، ہم سے جونیئر کلاس میں ایک ”بڈھا“ پڑھتا تھا جو ایک بے حد خبیث کردار تھا۔ عمر اس کی لگ بھگ پچاس سال ہو گی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی کی عمر کی ایک ہم جماعت ہر وقت ہوتی۔ سب کو یہ دونوں اپنا رشتہ ”ماموں بھانجی “بتاتے مگر اِن کی حرکات صریحاً ماموں بھانجی والی نہ تھیں۔ یہ شخص خود کوآئی ایس آئی کا ملازم ظاہر کرتا۔ سب سے بڑے تکبر سے پیش آتا اور کسی کو بھی ذلیل کرنے میں ایک لمحہ نہ لگاتا۔ اس شخص کا خاندانی نام ”ضمیر“ تھا، اس مناسبت سے یہ ہر جگہ ضمیر صاحب کہلاتا۔ خیر ایک روز اس کی موت جو آئی تو کچھ’ ٹیڑھے ‘لوگوں سے الجھ گیا۔ انہوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، اس کو خوب مارا اور نیم برہنہ کرکے رسیوں سے باندھ دیا۔ اس لڑائی میں ضمیر کی جیب سے سروس کارڈ برآمد ہوا جس پر مذکور تھا کہ یہ KMC کا ملازم ہے اور اس کا منصب سینٹری ورکر (Sanatory Worker)  ہے۔ اس واقعہ کے بعد ضمیر بھیگی بلی بن گیا۔ اسی طرح کا ”ضمیر“ آج کل مغرب کی بڑی پاک بیبیوں کا جاگ گیا ہے۔ یہ سب فلمی اداکارائیں اور ماڈلز ہیں جن کو 20، 30، 40 سال بعد یاد آ رہا ہے کہ کیسے کیسے کب کب کس کس کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُف پاک بیبیوں کے آنسو! میں تو یہ ”باضمیر “اعترافات پڑھ کر رو رو جاتا ہوں۔یادش بخیر، سگمنڈ فرائڈ نے شخصیت کی ساخت کے تناظر میں ضمیر(Super Ego) کا بڑا تفصیلی تذکرہ فرمایا ہے اور اسے انسانی نفسیات کا بڑا اہم عامل قرار دیا ہے۔ مگر آنجہانی فرائڈ کے لئے بھی یہ بات انکشاف سے کم نہ ہو گی کہ ضمیر بھی کوئی مستقل شے نہیں بلکہ ایک وباءہے۔ خیر غالب تو وبائے عام میں مرنا بھی نہ چاہتا تھا مگر ہمارے انفرادیت پسند نیم دہریے نیم کالے، نیم سفید برگر بچے بچیاں، پیروی مغربی میں اوندھے منہ ہی گرے جارہے ہیں۔

ضمیر جو کسی Sleeping Cell کی طرح اب تک بھنگ چڑھائے ہوئے تھا، اب یکدم بیدار ہو گیا ہے۔ ہر طرف سے ”می ٹو، می ٹو“ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ میشا شفیع پر بھی اچانک ضمیر کا بوجھ بہت بھاری ہو گیا تو انھوں نے اعلان” Me Too “کر دیا۔ ضمیر ہے یا ڈال پر لگی کیری؟ گرمی آئے گی تو پک کر آم بنے گا ضمیر؟ اس سے پہلے کون سی ”ڈرگز“ لے کر سو رہا تھا یہ ضمیر؟ یہ ضمیر ہمیشہ مطلب نکل جانے کے بعد ہی کیوں جاگتا ہے؟ اُف نیک بیبیوں کے آنسو! ویسے ہماری جامعہ کے ضمیر کی طرح اس ضمیر کی بھی پکڑ کر پٹائی کی جائے اور برہنہ کر کے جامہ تلاشی لی جائے تو یقینی طور پر یہ بھی بلدیہ کا بھنگی ہی نکلے گا ۔ بہرحال ابھی تو میرے خیال میں علی ظفر کے ذہن میں شیکسپیئر کا شہرہ آفاق مکالمہ ہی گردش کر رہا ہو گا۔۔۔

“You too, Brutus?”

 جس کا جواب یہ آیا ہو گا “Yes me too”

Yes me too!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).