جب میں جمال شاہ بن کے لڑکیوں سے باتیں کیا کرتا تھا


قصہ میرے ایکٹر بننے کا، شایع ہوا تو اس کے تبصروں کی لڑی میں، راشد نذیر علی صاحب نے بجا طور پہ ڈراما سیریئل ”کل“ کی کاسٹ میں شامل، اس وقت کی معروف ماڈل نوین نقوی کا نام یاد دلایا۔ ایک اور نام میں یاد دلاتا چلوں، وہ نام ہے، شہناز کا۔ شہناز نے ”کل“ میں انتہائی مختصر کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد وہ آئی ایس پی آر کی مقبول سیریئل ”ایلفا، براوو، چارلی“ میں ”شہناز“ کے کردار میں جلوا گر ہوئیں۔ راشد صاحب نے لکھا کہ ”کل“ کے بعد جمال شاہ نے “بازیچہ“ کی ہدایات دیں۔ پھر یہ کہ کے مجھے حیران کر دیا، ”جہاں تک یاد پڑتا ہے ظفر عمران شاید ’بازیچہ‘ کی کاسٹ میں تھے۔“ پل میں وہ دن یاد آ گئے جب اپنی پیاری کزن سے غرارے مستعار لیے تھے، اپنی ٹانگیں شیو کرتے جلد بری طرح سے چھیل لی تھی، اور ان زخموں نے ٹھیک ہونے میں وقت لیا تھا، کیوں کہ برسات کا مہینا تھا۔

”کل“ کی طرح، ”بازیچہ“ سے بھی میری بہت سی اچھی بری یادیں جڑی ہیں۔ خیام سرحدی مرحوم کی دل چسپ باتیں، نثار قادری سے ان کے تجربات کی معلومات لینا۔ سیٹ پر سائرہ خان سے میرا جھگڑا ہونا۔ ان سب واقعات سے ہٹ کے اپنی ایک حماقت بیان کرتا ہوں۔

نوین نقوی

جیسا کہ ”قصہ میرے ایکٹر بننے کا“ میں ذکر ہو چکا، جمال شاہ نے ڈراما سیریئل ”کل“ کی پروڈکشن کی، تو مجھے پہلی بار کسی بھی پروڈکشن ہاوس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ چار سال کے بعد ایک بار پھر میں ”ہنر کدہ“ کی پروڈکشن ”بازیچہ“ کا حصہ تھا۔ ”بازیچہ“ کی ہدایات، جمال شاہ اور ”دھواں“ فیم ہدایت کا سجاد احمد دے رہے تھے؛ میں ان دونوں کو اسسٹ کر رہا تھا۔ ”کل“ اور ”بازیچہ“ کے بیچ میں چار سال کی دوری ہے۔ ان چار سالوں میں ٹیلے ویژن کے لیے دو چار کام اور بھی کر لیے تھے۔ میرا پروفیشن کچھ اور تھا، ٹیلے ویژن ڈرامے سے ناتا تو بس شوق کی حد تک تھا۔

دُپہر میں جمال شاہ کا یہ معمول تھا، کہ وہ (ہنر کدہ) اپنے آفس روم سے اٹھتے، دوسری منزل پر اپنے سکونتی کمرے میں قیلولہ کرنے چلے جاتے تھے۔ اس دوران میں گراونڈ فلور پہ واقع ان کے دفتر میں بیٹھا ”ہوم ورک“ کیا کرتا تھا۔ ایسے میں کوئی کال آ جائے تو رِسیور اٹھاتا، کال کرنے والے کو بتا دیتا کہ جمال صاحب آرام کر رہے ہیں، اس کا پیغام نوٹ کر لیتا۔ ایک بار ایسی ہی رِسیور اٹھایا، ”ہیلو“ کہا، تو دوسری طرف سے دوشیزہ کی مد بھری آواز نے چھوٹتے ہی کچھ ایسا کہا، کہ میرے پسینے چھوٹ گئے۔ محترمہ مجھے جمال شاہ سمجھیں تھیں۔

پاکستان میں جمال شاہ کو اداکار کے طور پہ جانا جاتا ہے یا بہت ہوا تو ہدایت کار کہا جائے گا۔ آرٹ ورلڈ میں جمال شاہ کی پہچان پینٹر اور مجسمہ ساز کی ہے۔ جمال شاہ کی شخصیت میں کچھ ایسا ہے، کہ خواتین ان پر قربان ہو ہو جاتی ہیں۔ کوئی اُن پہ فدا ہونے والیوں کے قصے سنانے بیٹھے تو سننے والے کو مبالغہ معلوم ہوگا۔ میرا جمال شاہ سے کبھی ایسا ناتا نہیں رہا، کہ بے تکلفی سے بات کروں، استاد شاگرد کے احترام کی دیوار ہمیشہ درمیان رہی ہے۔ سچ کہوں تو نازنینوں کے لیے ان کی شخصیت کی کرشماتی کشش نے مجھے کئی بار حسد میں مبتلا کیا ہے۔

شہناز ”ایلفا براوو چارلی“ کے ایک منظر میں

اس پہلی کال جس کا اوپر بیان ہے، اس نے میرے ذہن میں ایک ’شیطانی‘ خیال کو جنم دیا۔ اب کوئی بھی کال آتی، میں جمال شاہ کی نقل کرتے سینے سے پھنسی سی آواز نکالتا۔ جمال شاہ نے برطانوی ’چینل فور‘ کے لیے ایک ڈاکیو ڈراما ”ٹریفک“ اور ایک انگریزی زبان کی فلم ”کے ٹو“ میں بھی کام کیا ہے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن انھی دونوں میں سے کسی ایک کے ہدایت کار نے جمال شاہ کو ڈائلاگ ڈلیوری کا یہ اسلوب سکھایا تھا، جو اب ان کا انداز بن گیا ہے۔ جمال شاہ کے اس سے پہلے کے ڈرامے دیکھیں، تو ان کی اداکاری ان کی ڈائلاگ ڈِلیوری کا دوسرا انداز دکھائی دیتا ہے۔

ایک دِن ایسے میں کال آئی، جب میں جمال شاہ کے آفس رُوم میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ میں نے جمال شاہ کی آواز میں کال اٹینڈ کی۔ میری ایک پرستار تھی، جو مجھ سے یعنی جمال شاہ سے ملنا چاہتی تھی۔ آواز کی حد تک تو نبھا لیا تھا، شکل کا کیا کروں! یہی سوجھا کہ اسے ”ہنر کدہ“ کا پتا دے دیا، کہا وہ مجھ سے ملنے اس پتے پر آ جائیں؛ گلی نمبر 83، مکان نمبر 17۔ سوچا ملنے بھی آ گئی، تو جمال شاہ سے مل کر لوٹ جائے گی، کب ہوگا کہ میرا نام آئے۔

سائرہ خان

اب میرا یہی طریق تھا، کال اٹینڈ کرتا، دبی دبی سی آواز میں ہیلو کہتا۔ کوئی فین ہوتی، تو چل سو چل؛ کوئی دوسری کال ہوتی، تو پیغام نوٹ کر لیتا۔ آفس میں دو فون سیٹ تھے، ایک فون کی ایکسٹینشن اوپر اس کمرے میں تھی، جہاں جمال شاہ آرام کیا کرتے تھے۔ ایک فون کی بیل ہوئی میں نے رِسیور اُٹھایا، جمال شاہ کے سے مخصوص لہجے میں کہا۔
”ہیلو“۔
دوسری طرف سے حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی۔
”ظفر؟“
مجھے چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ چھو گیا۔
”جیجی۔۔ جی۔۔۔ ظفر۔“
”یہ کیسے بات کر رہے تھے؟“
”کک۔۔۔ کچھ نئیں، سر۔۔ وہ۔۔ وہ نیند آ رہی تھی؛ سو گیا تھا۔۔۔ نیند کی وجہ سے، شاید!“
یہ عذر تسلیم کر لیا گیا۔
”زرا اوپر کمرے میں آو۔“
جتنی آیتیں یاد تھیں، وہ سب پڑھتے بھاری قدموں سے سیڑھیاں طے کرتا ہوا، ان کے پاس پہنچا۔ معمول کی کوئی ہدایت تھی۔ انھوں نے پلٹ کے ایک بار نہیں پوچھا، کہ آواز بنا کے کیوں بول رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ فون پر بات کرتے جمال شاہ کی آواز کی نقل کروں۔

”بازیچہ“ کی کاسٹ میں سائرہ خان، راحت ملتانیکر (ثریا ملتانیکر کی بیٹی) شقیق بلوچ، آصف شاہ، خیام سرحدی، نثار قادری، اور جمال شاہ نمایاں تھے۔ یہ پی ٹی وی ورلڈ کی اولین سہ ماہی کے نشر ہونے والے پروگراموں میں سے ایک تھا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran