اور جہاں پانی نہیں ہوتا؟ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا


‍اس کے سفید پروں تلے ریت تھی اور وہ اڑان پر تھا۔ پرندے کی سکڑتی آنکھوں نے نیچے دیکھا۔ نیچے ایک لکیر تھی۔ پرندے کی سکڑتی آنکھوں نے پہچان کی۔ لکیر لشکتی تھی پر ریت نہ تھی۔ اس میں نمی کی جھلک تھی۔ وہاں پانی تھا۔ جب اس کے نیم مردہ سر کو، اس کے سوکھتے بدن اور مرجھائے ہوئے پروں کو خبر ہوئی کہ وہاں پانی ہے تو اسی لمحے اس کی اڑان کا رخ اپنے آپ بدل گیا۔ وہ اس کی طرف لپکنے کے بجائے اس نمی سے اس پانی سے دور ہٹتا چلا گیا۔

پاروشنی نے آنکھیں برابر لا کر دریا کو دیکھا جو پہاڑ پاسے سے بہتا چلا آتا تھا۔ پانی بجھا ہوا برابر تھا۔ کہیں جھاگ نہیں تیرتی تھی جو یہ بتاتی کہ ادھر مینہ اتر رہا ہے۔ پانی سے کسی پہاڑی بوٹے کی ڈنٹھل پتے نہ ابھرتے کم ہوتے تھے جو یہ پتہ دیتے کہ ادھر آس پاس کا پانی دریا میں داخل ہو رہا ہے۔ پاروشنی نے گردن کو بل دے کر اپنا دایاں کان بہاؤ کے قریب کیا اور سنا۔ دریا خاموش تھا۔ بول نہیں رہا تھا جو معلوم ہوتا کہ بڑے پانی آنے کو ہیں۔
اس بار بڑے پانی کو دیر ہو گئی تھی۔

یہ دریائے گھاگھرا کی کہانی ہے جسے تارڑ صاحب نے اپنے ناول بہاؤ میں لکھا۔
قدیم  وادی سندھ کے لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے جس کا انحصار پانیوں پر ہوتا ہے۔ وہ مختلف طریقوں سے جان لیتے تھے کہ پہاڑوں پر برف پگھل رہی ہے اور اب زمینی علاقے سیراب ہونے والے ہیں۔

سندھو ندی جو کشمیر سے لے کر کیٹی بندر تک ایک جاہ و جلال کے ساتھ سفر کرتی  رہی ہے۔ اس میں شامل ہونے والی ندیاں اپنے اپنے خطے کا مزاج لے کر اس میں مل جاتی ہیں۔ پہاڑوں میں شور مچاتی سندھو ندی زمینی علاقوں میں آکر ٹھراؤ میں آتی ہے اور کیٹی بندر میں آکر عرب و عجم کا ملاپ کراتی ہے۔ صدیوں سے اس کے پانی کے چرچے ہیں۔
دریائی راستہ بدلنے سے گھاگھرا کی آبادی قحط کا شکار ہو کر ختم ہو رہی تھی۔ لیکن موہنجو دڑو اور ہری یوپیا ابھی آباد تھیں ۔

گھاگھرا کے لوگ کہتے تھے۔
ادھر بڑی بڑی بستیاں ہیں موہنجودڑو، ہری یوپیا۔ لیکن۔
جو بوٹا اکھڑ گیا وہ سوکھ گیا۔ میری ہریالی یہیں ہے۔
ادھر گھاگھرا سوکھ رہا تھا ادھر شہروں میں ترقی ہو رہی تھی۔
پھر آریا وادی سندھ میں قابض ہو رہے تھے۔

اندر دیوتا نے اپنے آفاقی عصا سے دریاؤں کے بند توڑ ڈالے اور وادی سندہ کے سارے شہروں کو تباہ کر ڈالا اور اسے دریاؤں کی ازادی کا نام دیا یہاں تک کہ ایک عرصہ وادی سندھ کے لوگ زراعت نہ کر سکے اور گلہ بانی کرنے لگے۔ ۔ اس لئے یہاں کے لوگوں کو زمین اور مویشی سے پیار ہے۔
کہیں دریا سوکھنے سے تہذیبیں اجڑیں کہیں سیلابوں نے بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

دریاؤں کا یہ کھیل چلتا رہا۔ اور سندھو ندی آزادی کے ساتھ کشمیر تا کیٹی بندر اپنا سفر معاون ندیوں کے ساتھ کرتی رہی۔ زراعت پھر سے ذریعہ معاش بن گئی۔ زراعت نے لوگوں کو مہذب بنایا۔ ان کو خانہ بدوشی سے نکال کر بستیاں بساناسکھایا۔ زمین کی محبت کے ساتھ پانی کی اہمیت قدیم زمانے سے ان وادیوں کا خاصہ رہی۔ یہاں ندیوں کو دیویوں کا درجہ دیا گیا۔ سندھو کو ماں کہا گیا کہ یہ ایک ماں کی طرح اس خطے کو سیراب کرتی ہے۔

گھاگھرا کا پرندہ اور پاروشنی پانی کو ترستےرہے۔
زمانہ آگے بڑھتا رہا۔ سیلاب اور قحط ایک بستی نمٹاتے تو دوسری بن جاتیں۔ لیکن سندھو ندی بہتی رہی اپنی شان و شوکت اور آزادی سے۔ پھر چندر گپت موریہ کا زمانہ آتا ہے۔ اور اعتزاز احسن سندھ ساگر میں لکھتے ہیں کہ انگریز سے پہلے صرف موریہ تھے جنہوں نے سندھ طاس پر قبضہ کیا۔

پھر انگریز ائے۔ زمانہ بدلتا رہا۔ دریاؤں کی آزادی پر بند باندھنے کا سلسہ بھی جاری رہا۔ ساتھ نئے طریقے بھی وضع ہونے لگے۔ پانی کی اہمیت میں کوئی کمی نہ آئی۔
پاکستان بنا بھی تو دشمن نے پہلا وار پانی پر کیا اور کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ شہ رگ پر ہی قبضہ کر لیا۔ منبع پر ہی قابض ہو بیٹھا۔ پھر دریا معاہدوں سے تقسیم ہوتے رہے۔ ڈیم بنانا ضروری ہو گئے۔ دشمن سیلاب کے زمانے اضافی پانی چھوڑ دیتا۔ اور جغرافیائی بلندی کا فائدہ اٹھاتا رہا۔ یہ سلسلہ ملک کی حدود میں آکر بھی جاری رہا۔

پرندہ پانی کو دیکھ کر بھی اس کی طرف نہ بڑھا اور دوسری طرف اڑتارہا۔ پاروشنی نے بھی گھاگھرا نہ چھوڑا۔
پھر دوسرے ڈیمز کے منصوبوں کے ساتھ ایک ڈیم کالا باغ کے مقام پر بنانے کا منصوبہ سامنے ایا۔ اس کے فوائد گنوائے گئے۔ ان گنت۔ دشمن نے کتنے ڈیم بنا لئے یہ بتا بتا کر شرم دلائی جاتی رہی۔ لیکن چھوٹے صوبے نہ مانے۔ بچپن میں ٹرین کا سفر کرتے ہوئے کوٹڑی اور سکھر بیراج کراس کرتے ہوئے نیچے دیکھنا مشکل لگتا تھا پھر ہماری آنکھوں کے سامنے کالج جاتے کوٹڑی بیراج کے نیچے بھینسوں کو تیرتے دیکھا اور اب سنا ہے کہ بھینسوں کے پاؤں بھی گیلے نہیں ہوتے۔ لیکن ڈیم نہ بنا۔ چھوٹے صوبوں کی زمینیں بنجر ہوئیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔

پرندہ پانی سے دور اپنی اڑان اڑتا رہا۔
اخر ماجرا کیا ہے۔
موجودہ حکومت کے اختتام پر اچانک ہی کالا باغ  ڈیم کی آوازیں شروع ہو گئیں۔ خطرات بڑھ چکے ہیں۔ پانی ختم ہو رہا ہے۔ دشمن شاطر ہے۔ اور پھر مسئلہ حل کرنے کے بجائے سیاست۔ اور پھر پرانے ہی بیانات۔ ہماری لاش پر بنا لو۔ کالا باغ ڈیم نا منظور۔ سیاسی شعبدے بازیاں۔ قوم پرست۔ وغیرہ۔ وہی الفاظ۔

کیا کالا باغ ڈیم ایک سیاسی مسئلہ ہے؟
نہیں۔ تین اسمبلیوں کے سارے ممبر اس کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ممبران سندھ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں اس کے خلاف ہیں اور پنجاب میں انہی پارٹیوں کے لوگ اس کے حق میں ہیں۔ ایم کیو ایم نے بھی ووٹ نہیں دیا۔ عمران خان نے وعدےکیے کہ سب کو اس پر راضی کرینگے لیکن وہ اپنے وزیر اعلی کو ہی نہ راضی کر پائے۔ اس کا مطلب کالا باغ ڈیم ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔

کیا کالا باغ ڈیم لسانی مسئلہ ہے؟
نہیں۔ سندھ کی طرف سے کالا باغ ڈیم کے خلاف جو ماہر سب سے آگے رہے وہ ایک راجپوت تھے اور لسانی اعتبار سے سندھی یا پٹھان نہیں تھے۔ سندھ کے کچھ علاقوں کے زمیندار پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں جیسے سانگھڑ اور نواب شاہ وغیرہ۔   مخالفت کرنے والے تینوں صوبوں کی زبان الگ ہے۔ اس کا مطلب یہ لسانی مسئلہ بھی نہیں۔

پرندہ اڑان سے تھک چکا تھا۔ پاروشنی کے پاس آدھی  مٹھی کنک رہ گئی تھی۔
پھر کیا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ خوف کا ہے۔ چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والی غیر یقینی اور عدم تحفظ کا ہے۔ یہ مسئلہ علاقائی ہے۔ جغرافیائی ہے۔ بڑا بھائی جو تری میں سیلاب چھوڑ دے اور خشکی میں ساتھ چھوڑ دے۔ مسئلہ اس خوف کا ہے کہ بڑے بھائی کا کردار بہت آئیڈیل کبھی نہیں رہا۔ اس مسئلے کو کبھی اس نقطہ سے نہیں دیکھا گیا نہ چھوٹے صوبوں کے تحفظات دور کیے گئے ہیں۔ اور یہ اس مقام تک آگئے ہیں کہ ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے لیکن ڈوبنے کے لئے تو پانی چاہیے۔ تو چلیں ہم تو سوکھیں گے صنم تم کو بھی سکھا دیں گے۔ سندھ ہو کہ خیبر پختون خواہ کہ بلوچستان  کوئی بھی ڈیم کے خلاف نہیں۔ یہ کالا باغ ڈیم کے خلاف ہیں۔ ان کو اس کی لوکیشن پر تحفظات ہیں۔ اس کی سائز پر اعتراضات ہیں۔ کہیں علاقے زیر آب آنے کے خدشات کہیں خشک ہو جا نے کے تحفظات۔ وہ اس کی جگہ چھوٹے ڈیم بنانے کے حق میں ہیں اور انجینئرز اپنی رپورٹس پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن ایک عرصے سے یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ ڈیم کے خلاف ہیں اور ڈیم ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہیں بن رہے۔ اس کو قوم پرستی سے جوڑا جا رہا ہے جبکہ صرف اے این پی قوم پرست پارٹی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی قوم پرست پارٹی نہیں اور سندھ قوم پرست پارٹیز کو شاید ہی اسمبلی میں کوئی نشست ملی ہو۔ پی ٹی آئی بھی قوم پرست نہیں جن کے وزیر اعلی بھی کالا باغ ڈیم کے حق میں نہیں۔

تین صوبے جن کا بڑا انحصار زراعت پر ہے اور سیاستدان خود زمیندار ہے وہ کیوں اپنی ہی زمینوں کو مزید  بنجر ہوتا ہوا دیکھنا چاہیں گے۔   تو پھر ایک عرصے سے ایک علاقائی جغرافیائی مسئلے کو کیوں توڑا مروڑ جا رہا ہے۔ اگر اس سے چھوٹے صوبوں کو کوئی نقصان نہیں تو انہیں یقین دلایا جائے یا پھر دوسرے منصوبے ہنگامی بنیادوں پر بنائے جائیں۔ دوسرے قابل عمل منصوبوں کو کس نے روکا ہوا ہے۔ لاشوں سے گزر کر ڈیم بنانے کی باتیں کرنے والے یہ بتائیں کہ کالا باغ ڈیم چھوڑیں دوسرے ڈیم کیوں نہیں بنے۔ اس طرح مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔ نفرت کی سیاست سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔   معاملہ اس نازک اسٹیج تک پہنچ چکا ہے کہ فوری عوامل کی ضرورت ہے۔

پانی دیکھ کر بھی پرندہ نیچے اترنے کے بجائے الٹی اڑان کیوں اڑا۔
پاروشنی ورچن کے ساتھ اٹھ کر موہنجو کیوں نہ گئی جہاں سندھو تھا۔ پرندہ تھک چکا تھا۔ پاروشنی کی مٹھی سے کنک نکل کر گر رہی تھی کہ اس کی مٹھی کی گرفت ڈھیلی پڑتی جاتی تھی۔

ہمیں ڈیم مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کی لاش گرائے بغیر۔ کالا باغ ڈیم کے خلاف پارٹیز کو چاہیے کہ وہ اپنا سلوگن بدل دیں۔ ڈیم منظور کالا باغ نا منظور۔ اور اپنے موقف کو واضح کریں۔ پنجاب اور وفاق کو چاہیے کہ نئے قابل عمل منصوبوں کی بات کریں۔ اور جلد از جلد کریں۔ ڈیم کے لئے ایسے ایک ہو جائیں جیسے کرکٹ کے لئے ہو جاتے ہیں جو محض ایک کھیل ہے جبکہ پانی حیات ہے۔ پانی کی موت زندگی کی موت ہے۔ سب سے اوپر اللہ کا عرش پانیوں پر ہے اور اس حیات کو اس نے پانی سے بنایا۔

جہاں جہاں ندیاں ہیں وہاں وہاں ہم جیسے لوگ ہیں جو زمین کھود کر بیج ڈالتے ہیں اور پانی کی اڈیک میں بیٹھے رہتے ہیں اور ساری حیاتی یہی کرتے رہتے ہیں اور پھر اس برتن میں جو ان کی اڈیک میں ہوتا ہے جا گرتے ہیں۔ سارا پانی کا کھیل ہے۔ مہا میا بھی پانی بنا ہری نہیں ہوتی۔
اور جہاں پانی نہیں ہوتا؟
وہاں تو بس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ (بہاؤ )

ماضی میں دریاؤں کے سودے ہوئے مادر ملت چیختی رہیں۔
خیبر پختونخواہ کی ایک مشہور سیاستدان پر انڈیا سے پیسےلے کر ڈیم مخالف بیانات کے الزام لگے۔
انڈیا کمال ہوشیاری سے ڈیم بناتا رہا۔ ایک بہت قابل اعتبار شخصیت نے بتایا کہ ڈیم بنانے کے کچھ اصول مختص ہیں۔ اگر انڈیا ان دریاؤں پر کوئی ڈیم بنانا چاہے تو اسے پہلے پاکستان کو اپنا پلان بتانا ہوگا اور اگر اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں تو ہماری طرف سے کلیئرنس جائے گی اور اس کے لئے ٹائم لمٹ ہے۔ اس طرح کا پلان جب ہماری حکومت کو دیا گیا تو صاحب اقتدار ڈپارٹمنٹ نے اس فائل میں کوئی پیش رفت نہیں کی اور کھا پی کر بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ مقررہ وقت گزر گیا اور انڈیا نے ڈیم بنا ڈالا۔

تو ورچن ساری بستیاں باہر والے مردہ نہیں کرتے۔ کرتے ہیں پر ساری کی ساری نہیں کرتے۔ یہ ہم خود ہوتے ہیں اپنے بھائی بندوں کو جانور بنا کر رکھنے والے۔ (بہاؤ )

ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اس کسان اس ہاری کا دکھ کیسے محسوس کیا جا سکتا ہے جس کا سب کچھ زمین ہے جو پانی نہ ہونے کی وجہ سے بنجر ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے لئے جب تک فرج کھولیں  پانی کی بوتل مل جائے یا شاور میں پانی آتا رہے پانی کی قلت نہیں۔ لیکن شہر بھی تب تک آباد رہتے ہیں جب تک کھیت کھلیان رہیں۔ شہروں اور دیہاتوں کی بقا ایک دوسرے پر منحصر ہے۔

وہاں بے انت اور ان گنت پرندے تھے۔ وہاں اتنے پرندے تھے جتنے پرندے آج تک پیدا ہوئے جو ہیں وہ بھی جو نہیں ہیں وہ بھی اور جو ہوں گے وہ بھی۔ سب اس کے ہم شکل اس جیسے اس کی اڈیک میں۔ ہمارے پاس اتر آؤ۔ ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ یہ سراب تو نہیں۔ اس نے ہر پرندے نے باری باری پوچھا۔ اور کسی نے بھی جواب نہ دیا کیونکہ۔ یہ سراب نہ تھا۔ وہ جھیل کنارے پرندوں کے غول کے درمیان آگرا۔
پاروشنی نے اسے ایک ہاتھ سے اٹھایا اور دوسرے سے اس کی کھلی چونچ میں پانی ٹپکاتے ہوئے کہا۔ تم بھی اس جھیل پر مرنے کے لئے آگئے ہو؟
پرندے نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ مر چکا تھا ۔

اٹھو یہاں سے چلیں۔
کہاں۔
جہاں پانی ہو۔ موہنجو بھی جا سکتے ہیں۔ وہاں سندھو ہے۔
چلو پاروشنی۔ اب ہم ٹھیکروں سے جانے جائیں گے۔ اب کھیت نہیں ہوں گے۔ چلو۔
نہیں۔ پاروشنی بولی اور ایسے بولی کہ ورچن نے دوبارہ نہ کہا کہ چلو۔ (بہاؤ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).