جلدی کرو بچو، بھوت آ جائے گا


منظور پشتین

منظور پشتین کی پشتون تحفظ موومنٹ کا ذکر آتے ہی کسی انجانے بھوت کے خوف سے سب خاموش ہو جاتے ہیں

بچپن میں جب بوڑھی دادی اماں کہانی سناتے سناتے تھک جاتیں اور نٹ کھٹ بچے ‘پھر کیا ہوا؟’ کا سوال لے کر درپے رہتے تو دادی اماں آخری حربے کے طور پر کہا کرتیں ‘بچو اب جلدی سے سو جاؤ ورنہ بھوت آ جائے گا۔’

یہ دھمکی ہمیشہ کارگر ثابت ہوتی اور ایک انجانے خوف کے زیر اثر بچے ماچس کی تیلیوں کی طرح چارپائی پرآڑے ترچھے سو جایا کرتے تھے۔

یہ نہیں کہ بھوت صرف دادی اماں کی کہانی تک محدود تھے۔ ان سے سامنا تو روز کی بات تھی۔ جس بچے نے اپنی پلیٹ میں کھانا چھوڑا اس کو بھی دھمکایا جاتا تھا کہ ‘جلدی سے پلیٹ صاف کر لو ورنہ بھوت کھا جائیں گے۔’ اگر کبھی کھیلنے کے لیے باہر نکلے اور ماں باپ کی نظر سے ذرا دور ہوئے کہ پیچھے سے آواز پڑتی ‘اس آگے نہ جانا وہاں بھوت ہوتے ہیں۔’

سچی بات تو یہ ہے نہ تو آج تک کبھی کسی بھوت سے دوبدو ملاقات ہوئی نہ کبھی ان سے صاحب سلامت کا موقعہ آیا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ بھوتوں کی شباہت کیسی ہوتی ہے؟ شمائل کیسے ہیں؟ یہ گفتگو کس زبان میں کرتے ہیں؟ ہاتھ کتنے لمبے ہوتے ہیں؟ قد کتنا دراز ہوتا ہے؟ ان کے پاوں کتنے ہوتے ہیں؟ لیکن اس کے باوجود جانے کیوں بچپن سے اب تک دل ان کے خوف سے دہل جاتا ہے۔

بچپن گزر گیا، جوانی بھی غارت ہوئی اب بالوں میں سفیدی اور آنکھوں پر نظر کا چشمہ آن ٹکا، مگر بھوتوں کے خوف سے اب بھی نجات نہیں ملتی۔ کسی بھی پاکستانی نیوز چینل کو لگا کر دیکھ لیں ‘ان’ کے خوف سے سامنا ہو ہی جاتا ہے۔

اچھے بھلے نامور تجزیہ نگار اور اینکر حضرات نواز شریف کی دھجیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں، عمران خان کےعہد شباب کی علتوں کا ذکر نہایت فصاحت سے کر رہے ہو تے ہیں، زرداری کی کرپشن کا تمسخر اڑا رہے ہوتے ہیں، ہماری سیاسی تاریخ میں عدلیہ کے قبیح کردار پر تبصرے بھیج رہے ہوتے ہیں یا پھر سیاسی نمائندوں کی جنسی بے راہ روی کے رجز پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ اچانک کہیں سے جنرل اسد درانی کی کتاب کی آواز آتی ہے تو تجزیہ کار مع اینکر کے ایسے ہو جاتے ہیں کہ اگر جلدی سے اس مردود موضوع سے ہٹ کر کوئی بات نہ کی تو بھوت آ جائے گا اور سب کو کھا جائے گا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی

پاکستان میں اکتیس مئی کو جمہوری حکومت نے اپنی مدت مکمل کی ہے

یہ انجانا خوف ان بے باک اینکروں کے چہروں پر بھی نطر آتا ہے جو بے دھڑک ہر خواہش کو خبر بنا رہے ہوتے ہیں۔ ہر کرپٹ سیاستدان کو اپنے تجزیوں میں سرعام کوڑے لگوا رہے ہوتے ہیں۔

ایسے میں کوئی سوال کی جسارت کر لے کہ وہ ایک حضرت مشرف ہوا کرتے تھے، آئین پاکستان کو اپنی پاپوش مبارک کی نوک پر دھرا کرتے تھے، ڈرے سہمے عوام کو مکے دکھا کردھمکایا کرتے تھے، ان کے مواخذے پر بھی بات ہونی چاہیے ، ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے، کوڑے مارنا تو دور کی بات ہے کم از کم ان کو عدالت میں تو پیش کرنے کی التماس کرنی چاہیے تو ایسے میں سٹوڈیو میں اچانک کوئی انجانا بھوت آ جاتا ہے۔

سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ زبانیں خوف سے خشک ہو جاتیں ہیں اور ہونٹوں پر سہم سے پپڑیاں جم جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی بھوت آ گیا ہو ایک لفظ بھی منہ سے زائد نکلا تو یہ بھوت سب کو کھا جائے گا۔

یہی منظر ہوتا ہے جب کہیں منظور پشتین کی پشتون تحفظ موومنٹ کا ذکر آ جائے، یا کوئی بدبخت کسی بھی میڈیا پر مسنگ پرسنز کی بات چھیڑ دے تو کسی انجانے بھوت کے خوف سے سب خاموش ہو جاتے ہیں، حتی کہ چینل بند ہو جاتے ہیں،

اخباروں کی کاپیاں جل جاتی ہیں، کالم غائب کر دیے جاتے ہیں، خبریں گم ہو جاتیں، اور عموماً خبر دینے والے بدقماش صحافیوں کو لڑکی کے بھائی سرعام زدوکوب کر جاتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی آخری تقریر میں کہا ہم الیکشن میں ایک منٹ کی تاخیر برداشت نہیں کریں گے، نئے نگران وزیر اعظم کا پہلا بیان بھی بروقت الیکشن کے بارے میں تھا۔

سپریم کورٹ نے بھی نگران حکومت کو سختی سی تنبیہ کر دی ہے کہ ہر صورت میں وقت مقررہ پر الیکشن کروائے جائیں۔ نواز شریف بھی اپنے جلسوں میں یہی بات دوہرا رہے ہیں۔ بار بار کہا جا رہا کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہیں۔

دو جمہوری دور جیسے تیسے گزر چکے ہیں اب تیسرا جمہوری دور بھی آئین اور قانون کے مطابق شروع ہونا چاہیے۔ عوام کا اختیار جلد از جلد عوامی نمائندوں کو منتقل ہونا چاہیے۔ جمہوریت کا تسلسل ہونا چاہی۔

لیکن بروقت الیکشن کی بات کرتے ہوئے ہم سب کے دلوں کی دھڑکن کسی انجانے خوف سے تال ملاتی اور ہمارے ذہنوں میں وسوسے ڈالتی ہے کہ اگر الیکشن وقت پر نہ ہوئے تو پھر جیسے اس ملک میں کوئی بھوت آ جائے، جو سب کچھ کھا جائے گا اور اس سارے نظام کو، کچا چبا جائے گا، ہمیں پھر سے دہشت کی صدیوں میں واپس لے جائے گا۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar