پھول کالے، تتلیوں کے پر سلیٹی ہو چکے ہیں


آج ماحولیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام 1974ء سے دنیا بھر میں یہ دن ہر سال 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے عام لوگوں میں شعور اجاگر کرنا اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل، گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلیاں، صنعتی و ایٹمی تابکاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہلک امراض پر قابو پانے کے لیے مشترکہ عالمی کاوشوں سے اقوامِ عالم کو قوانین سازی کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس سال اس دن کا عنوان “پلاسٹک بیگز کی آلودگی کا خاتمہ” رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں تو اب اس میں سیاسی آلودگی کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ راقم نے اپنے ادبی سفر کی ابتدا ہی سے اس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے اسے اپنی شعری حسیات کا حصہ بنا لیا تھا لیکن 1979ء میں نظم “پانی میں گم خواب” اور 1993ء میں بطورِ خاص ایک نظم “ویپ ہولز” لکھ کر اردو ادب کو ماحولیاتی آلودگی جیسے مسئلے کی اہمیت اور اس کے خوفناک اثرات کی طرف متوجہ کیا تھا۔ آج پھر دہائیوں بعد اس دن کی مناسبت سے وہ نظم پیش ہے۔

ویپ ہولز Weep Holes

ہمیں دیوار مت سمجھو
کہ جب دیوار کے پیچھے کی مٹی بھیگ جائے گی
تو ہم بوجھل نمی کا دکھ بہائیں گے

ابھی نم گیر ہے مٹی،
درختوں کی جڑوں کو چوستی ہے
پانیوں کا دکھ
ابھی دیوار کے پیچھے کی مٹی تک نہیں پہنچا
زمیں نے آسماں کا غم زدہ چہرہ نہیں دیکھا
ابھی دیوار کو رونا نہیں آیا

ہوا پتوں کا رستہ دیکھتی ہے
بے شجر سڑکوں پہ پولی تھین کے خالی لفافے سرسراتے ہیں
خود اپنے موسموں کا خون پی کر
لوگ جرثوموں کی صورت پَل رہے ہیں
تابکاری کے الاؤ جل رہے ہیں
بدنمائی کے دھوئیں سے
پھول کالے، تتلیوں کے پر سلیٹی ہو چکے ہیں
خواب کا چہرہ
دباؤ سے بگڑ کر ٹوٹ جائے گا
نمی کو راستہ دو
درد کے بادل برسنے دو
زمیں پر آسماں کا دکھ اترنے دو

ہمیں دیوار مت سمجھو
ہمیں بیکار مت سمجھو
کہ جب دیوار کے پیچھے کی مٹی بھیگ جائے گی
تو ہم بوجھل نمی کا دکھ بہائیں گے
ہماری آنکھ میں آنسو نہیں خوابوں کی کیچڑ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).