شدت پسند حملوں سے کچھ نہیں ہوتا، ایک دن سب نے جانا ہے: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار


چیف جسٹس

کسی سیاست دان کو ریاست کی طرف سے فراہم کی گئیں بلٹ پروف اور لگثری گاڑیوں پر انتخابی محم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی: چیف جسٹس

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سیاست دانوں اور دیگر سرکاری افسران کو لگژری گاڑیوں کی واپسی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ شدت پسند حملوں سے کچھ نہیں ہوتا، ایک دن سب نے جانا ہے۔

منگل کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے جمعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے وکیل کامران مرتضیٰ کو روسٹم پر بلایا اور اُن سے استفسار کیا کہ وہ مولانا صاحب سے پوچھ کر بتائیں کہ بلٹ پروف گاڑی کے ساتھ ساتھ ڈبل کیبن گاڑیاں کیوں رکھی ہیں۔

عدالت نے یہ بھی استفسار کیا کہ اگر مولانا صاحب کو بلٹ پروف گاڑی مل گئی ہے تو پھر انھیں ڈبل کیبن گاڑیاں رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالتی استفسار پر کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی ہی جماعت کے رہنما اور سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین علامہ غفور حیدری پر شدت پسندوں کے حملے ہو چکے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے تو جانثار ہی بہت ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں جانثاروں کی وجہ سے کوئی حملہ آور مولانا فضل الرحمان تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔

اُنھوں نے کہا کہ لگژری گاڑیوں کے اخراجات قوم برداشت کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر ایڈشنل اٹارنی جنرل سے یہ بھی استفسار کیا سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے پاس کتنی لگثری گاڑیاں ہیں تاہم اس بارے میں رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کروائی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی سیاست دان کو ریاست کی طرف سے فراہم کی گئیں بلٹ پروف اور لگثری گاڑیوں پر انتخابی محم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سپریم کورٹ

اس سے قبل پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سمیت دیگر اہم سیاسی شخصیات کو دی جانے والی غیر ضروری سکیورٹی واپس لینے کا حکم دیا تھا

واضح رہے کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے پاس بھی بلٹ پروف گاڑی ہے اور اس گاڑی کی واپسی کا معاملہ گذشتہ چار سال سے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ سابق چیف جسٹس نے پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بھی بنا رکھی ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ تمام سابق وفاقی وزرا اور حکومتی شخصیات سے گاڑیاں واپس لے لی گئی ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن، علامہ غفور حیدری اور سابق وفاقی وزیر کامران مائیکل سے بلٹ پروف اور لگثری گاڑیاں واپس نہیں لی گئیں جس پر عدالت نے پہلے تو ان افراد کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کا نوٹس جاری کیا اور پھر بعدازاں چیف جسٹس نے یہ نوٹس واپس لے لیا۔

چیف جسٹس نے کچھ دیر کے بعد مولانا فضل الرحمن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے، اگر مولانا کو بلٹ پروف گاڑی چاہیے تو وہ اس بارے میں عدالت کو آگاہ کریں۔

اس سے قبل پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سمیت دیگر اہم سیاسی شخصیات کو دی جانے والی غیر ضروری سکیورٹی واپس لینے کا حکم دیا تھا۔

اس عدالتی حکم کے بعد سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر اُن کے والد (نواز شریف) کو کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان کے چیف جسٹس پر ہو گی۔

اس بیان کے بعد چیف جسٹس نے تمام اہم شخصیات کو ضرورت کے مطابق سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

سماعت کے دوران عدالت نے ایف بی آر کے چیئرمین کی طرف سے لگثری گاڑیوں کی واپسی سے متعلق تفصیلات جمع نہ کروانے پر ان کی سرزنش کی اور حکم دیا کہ ایف بی آر کے افسران کے پاس جتنی بھی لگثری گاڑیاں ہیں وہ واپس لی جائیں۔

عدالت نے قومی احتساب بیورو کو اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

مولانا فضل الرحمان

مولانا فضل الرحمان کے تو جانثار ہی بہت ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں جانثاروں کی وجہ سے کوئی حملہ آور مولانا فضل الرحمان تک پہنچ ہی نہیں سکتا: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگثری گاڑیوں پر اربوں روپے کا خرچہ ہو رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک کے18 لاکھ لوگ ٹوٹل ٹیکس ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسوں پر لگژری گاڑیاں چلتی ہیں۔

پنجاب کے چیف سیکرٹر ی نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب کے سابق صوبائی وزیر کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد صوبائی وزرا کو بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی گئی تھیں۔

بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں 49 لگژری گاڑیاں ریکور کر لی ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سابق سات وزراء سے گاڑیوں واپس کیوں نہیں لی گئیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ منگل کی رات تک تمام سابق وزراء سے گاڑیاں واپس لیں اور اگر سابق وزرا گاڑیاں واپس نہ کریں تو ہر گاڑی پر ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا اور ایک ہفتے کے بعد یہ جرمانہ ڈبل ہو جائے گا۔

Jun 5, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp