یہاں جج پہ عام بندہ بھی انگلی اُٹھا دے تو اس کو اتنے تک عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے جب تک خود کو بے گناہ ثابت نہ کر لے لیکن ہم وہ قوم ہیں کہ کوئی کہہ دے کتا کان لے کر جا رہا ہے تو کتے کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ کان کو چیک نہیں کرتے کہ سچ ہے کہ جھوٹ ہے۔ یہاں میری کار کو اگر تھریسا مے بھی ٹکر مارے گی تو اس کا جرم اور سزا عام بندے کے جیسی ہوگی لیکن پاکستان میں اگر یوسف رضا گیلانی کا بیٹا یہ سب کرے گا تو سزا ڈرائیور کو دی جاتی ہے۔ اگر یہ کام کوئی غریب کرے گا تو بیس سال تک کیس چلے گا، پھر اس کو سزا سنائی جائے گی اور کئی غریب بے گناہ جیلوں میں پڑے ہیں اور سزا کاٹتے کاٹتے جب مر جاتے ہیں، تو بے گناہ قرار دیا جاتا اور کئی سالوں کے بعد فیصلہ ہوتا ہے۔

باپ کا کیس ہو تو فیصلے کے انتظار میں دو نسل تو دُنیا سے جا چکی ہوتی ہیں اور فیصلہ جا کر پوتا سنتا ہے۔خدیجہ صدیقی کو خنجر کے 23 وار کرنے والا بندہ شاہ حسین بری ہو گیا ہے۔ سنا جا رہا ہے کہ وہ ایک بڑے وکیل کا بیٹا ہے اس لیے کیا خدیجہ صدیقی پاکستان کی بیٹی نہیں ہے۔ اس کا گلا کاٹا ہوا ہے اور وہ در در دھکے کھا رہی ہے، تو کیا ہم کل شاہ حسین ہی کو مجرم کہیں گے اور اپنے قانون کو کچھ نہیں کہیں گے۔

ہماری سب پریشانیوں کی وجہ ہمارا ناقص قانون ہے جو بکتا ہے اور جب قانون بکنے لگے تو غریب کا خون اور عزت گلیوں پہ ملتی ہے۔ یا تو پھر صاف کہہ دیں کہ غریب قانون سے انصاف مانگنے نہ آئے۔ پاکستانی قانون امیر یا طاقور کو سزا نہیں دے سکتا۔ ساتھ میں انڈیا کی عدالتوں ہی کو نقل کر لیں ویسے تو نقل کرنے کے ماہر ہیں۔ انڈیا کا قانون ہم سے کئی درجے بہتر ہے۔ جب کہ پاکستان میں سب کو رٹائرمنٹ کے بعد بھی ہیلی کاپٹر پہ بیٹھنا ہوتا ہے، اس لیے غریب اور قانون جائے بھاڑ میں۔

جب تک قانون امیر غریب کے لیے ایک نہیں ہوگا تب تک جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی مثال قائم رہے گی اور کئی امیر مجرم اور غریب مظلوم بنتے رہیں گے اور ہم اعوام صرف مجرم کو طعنے ہی دیتے رہیں گے کہ فلاں نے یہ جرم کیا تھا۔ جب تک قانون سزا نہیں دے گا کئی شاہ حسین گلے کاٹتے رہیں گے اور پھولوں کے ہار پہن کر وکٹری کا نشان بنا کر بری ہوتے رہیں گے۔ خدیجہ صدیقی جیسی کئی پاکستان کی بچیاں امیروں کے قانون کے اگے ہار مان جائیں گی اور کئی خود کشی کر لیں گی اور کئیوں کے بھائ لوگوں کے طعنوں سے تنگ آ کر شاہ حسین جیسوں کا قتل کرنے پہ مجبور ہو کر پھانسی چڑھتے رہیں گے۔ ہم سو کالڈ جمہوریت کا ڈھول پیٹتے رہیں گے۔ قانون ہی سب مسائل کا حل ہے انصا ف کا نظام نہیں ہوگا تو جیسے کہا گیا ہے کفر کا نظام چلے گا اور ظلم کا مٹ جائے گا وہی ہوگا۔