سنگیت کے سمندر کی حقیقی شہزادی لتا منگیشکر کی داستان



لتا جی بلاشبہ گائیکی کی دنیا کی لیجنڈ شخصیت ہیں. جب بھی ان کا ذکر آتا ہے تو سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح کے لفظوں سے ان کی مداح سرائی کی جائے. لتا جی کی عظمت کی داستان چند لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جس طرح مصور رنگوں سے دنیا کی خوبصورتی بیان کرتا ہے،موسیقار سروں سے کھیلتا ہے اورعظیم نغمہ سامنے لے آتا ہے جیسے لکھاری خوبصورت لفظوں سے نغمہ ترتیب دیتا ہے ایسے ہی ایک گائیک اپنی آواز کے جادو سے دنیا کو بہشت بنا دیتا ہے۔ میرا زاتی خیال یہ ہے کہ لتا منگیشکر جیسی گلوکارہ اس دنیا میں نہ پہلے پیدا ہوئی تھی اور نہ ہی کبھی دوبارہ جنم لیں گی،اب لتا منگیشکر جیسا ہوجانا ناممکن ہے کیونکہ اس حسین کائنات میں صرف ایک ہی لتا منگیشکر ہیں۔ بہت عرصہ پہلے انہوں نے ایک انٹرویو دیا تھا جس میں سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ لتا جی اگلے جنم میں کیا بننا چاہیں گی؟تواس سوال کہ جواب میں لتا جی نے معصومیت سے جواب دیا کہ وہ اگلے جنم میں کچھ بھی بن جائیں،انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا،لیکن وہ دوبارہ لتا بننا نہیں چاہیں گی۔ اس جواب سے تو یہی لگتا ہے کہ لتا بننا بہت کٹھن سرگرمی ہے ،یا اس جواب کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ لتا صرف ایک جنم لیکر آتی ہے،باربار لتا جیسی ماہان گلوکارہ کا جنم لینا بھی قدرت کے لئے آسان کام نہیں۔ انہوں نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت تکالیف اور مسائل برداشت کئے ہیں،شایداس لئے وہ دوبارہ لتا کا جنم نہیں چاہتی۔

لتا کے والد ہندوستان کے بہت بڑے سنگیت کار ،گائیک اور اسٹیج اداکار تھے،ان کا نام دینانات منگیشکر تھا۔ دینانات کے پانچ بچے تھے،لتا ان پانچ بچوں میں سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ وہ خود کہتی ہیں کہ جب وہ چھ یا سات برس کی تھی تو بہت شرارتی تھی ،ان میں لاابالی پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ شرارتیں کرنا ،لوگوں کو تنگ کرنا ،لڑکوں والے کھیل کھیلنا انہیں بہت پسند تھا۔ ہمیشہ وہ پرانے ٹائر کے پہیے کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔ کسی کو شبہہ بھی نہ تھا کہ ان میں گلوکاری کا ٹیلنٹ ہے۔ لتا میڈم کے والد ایک میوزک اکیڈمی بھی چلاتے تھے،جہاں وہ نوجوانوں کو سر اور لے کی تربیت دیا کرتے تھے۔ ان کے والد نے ایک بچے کو خاص انداز کی موسیقی کی تربیت دی ،وہ لڑکا ٹھیک طریقے سے نہیں گاپارہا تھا۔ لتا کے والد نے کہا بیٹا کچھ دیر ریہرسل کرلو ،پھر تمہیں یہ خاص اندازکی موسیقی کی سمجھ آجائے گی۔ لڑکا گھنٹوں ریہرسل کرتا رہا،لیکن ٹھیک طریقے سے گائیکی کا مظاہرہ نہ کرسکا۔ چھ سال کی لتا بھاگ کر اس بچے کے پاس آئی،اور کہا کہ تم ٹھیک نہیں گارہے،اس طرح گانا گاو،پھر لتا نے اس خاص گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ لتا جی کا والد بیٹی کے اس ٹیلنٹ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ دینانت منگیشکر کو پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی گائیکی کے فن میں منفرد ٹیلنٹ اور صلاحیت سے مالا مال ہے۔

دینانات نے میراٹھی میں کئی فلمیں بنائی،جس میں لتا جی نے نغمے بھی گائے ،لیکن یہ تمام فلمیں بدقسمتی سے ناکام ثابت ہوئیں۔ ان کے والد کی تھیٹر کمپنی بھی تھی،وہ بھی مالی مشکلات کی وجہ سے چل نہیں پارہی تھی۔ انیس سو اکتالیس میں لتا اپنے خاندان کے ہمراہ سانگلی سے پونا شفٹ ہو گئیں۔ اب لتا تھی ،تھیٹر کمپنی تھی ،شہر شہر ،گاوں گاوں یہ تھیٹر کمپنی سفر کرتی،لتا جی بھی اس تھیٹر کے ساتھ رہتی اور اسٹیج پر گانے پرفارم کرتی تھی۔ انیس سو چوالیس میں لتا جی کے والد کا انتقال ہو گیا،تھیٹر کمپنی بند ہو گئی۔ اب عظیم گلوکارہ کنسرٹ شوز میں گاکر گانے گاتیں ،اور اس طرح پیسہ جمع کرکے گھر والوں کی زمہ داریاں نبھاتی رہیں۔ چودہ برس کی بچی پر خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ تھا۔ گھر کا خرچہ پورا نہیں ہورہا تھا تو تھیٹر اور فلموں میں اداکاری کرنا شروع کردی۔ کہتی ہیں وہ دور انتہائی تکلیف دہ تھا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اداکاری پسند نہیں تھی ،لیکن گھر کی ذمہ داریاں نبھانے کی خاطر ایسا کرنا پڑرہا تھا۔ خاندان کو سنبھالنا ضروری تھا ،اس لئے اداکاری کرتی رہیں۔ انیس سو چوالیس میں ہی پہلا ہندی گانا گایا ،جس کے بول تھے ہندوستان والو اب تو مجھے پہچانو۔ لیکن حالات بدستور خراب تھے۔ پھر فیصلہ ہوا کہ منگیشکر فیملی کو پونا سے ممبئی شفٹ ہو جانا چاہیئے۔

لتا خاندان کو لیکر ممبئی منتقل ہوگئی اور قسمت آزمانا شروع کردی۔ ممبئی نانا چوک پرکرائے پر گھر لیا اور کام ڈھونڈنا شروع کردیا ،انہیں تھوڑا بہت کام ملنا بھی شروع ہو گیا۔ اس عرصے میں لتا جی کی ملاقات موسیقار ماسٹر غلام حیدر سے ہوئی،انہی دنوں فلمستان اسٹوڈیو میں ایک فلم بن رہی تھی،فلم کے پروڈیوسر کونئی گلوکارہ کی آوازکی ضرورت تھی۔ ماسٹر غلام حیدر لتا جی کو اس وقت کے معروف پروڈیوسر ایس مکھر جی کے پاس لے گئے اور کہا کہ یہ لڑکی بہت اچھا گاتی ہے،ایس مکھر جی نے لتا جی کی آواز سنی اور کہا ان کی آواز بہت پتلی ہے فلموں کے لئے یہ آواز مناسب نہیں ہے۔ لتا جی نے اس موقع پر حوصلہ نہیں ہارا ،کام کرتی چلی گئیں۔ فلم انڈسٹری میں اب لتا جی کی تھوڑی بہت پہچان بن گئیں تھی۔ اسی دوران کسی اداکار نے لتا جی کو طعنہ دیا کہ وہ میراٹھی زبان بولتی ہیں،میراٹھی بولی بولنے والوں کا ہندی تلفظ ٹھیک نہیں ہوتا،اسی لئے میراٹھی بولنے والے بڑے گلوکار نہیں بن پاتے۔ لتا نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ اردو ٹیچر سے تلفظ کی تربیت حاصل کرنا شروع کردی،اردو تلفظ پر کام کرنا شروع کردیا۔ انیس سو انچاس میں ایک فلم بن رہی تھی جس کا نام تھا محل،اس فلم کا ایک گانا تھا،آئے گا آنے والا آئے گا ،کمال امروہی اس فلم کے پروڈیوسر تھے ،یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی ،اس فلم کی کامیابی کی وجہ یہی گانا تھا۔ پھر کیا تھا اس گانے کی دھوم مچ گئی۔ ہندوستانی اس گانے کے دیوانے ہو گئے۔ پورے ہندوستان میں اب ایک ہی نغمہ گونج رہا تھا ،آئے گا آنے والا ،جسے آنا تھا اب وہ آگیا تھا،لتا کی آواز نے جادو جگادیا تھا۔

اس کے بعد لتا جی کے لمبے کیرئیر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پھر کیا تھا ڈائریکٹر آئے ،اور چلے گئے ،پروڈیوسرز آئے اور چلے گئے ،کئی گانے والے آئے ،اور گمنام ہو گئے ،لیکن لتا جی کا چراغ جلتا رہا ،اور آج بھی روشن ہے۔ آج لتا جی کے فن کو تمام دنیامانتی ہے۔ کلاسیکل موسیقی کے شہنشاہ بڑے غلام علی خان نے ایک بار لتا جی کے بارے میں کہا تھا ،کمبخت کبھی بے سری ہوتی ہی نہیں۔ لتا نے اب پلے بیک سنگنگ کو ایک آرٹ بنادیا تھا۔ مینا کماری سے ہیلن تک لتا جی جو بھی نغمے گائے،ایسا لگا جیسے وہ ہیروئن کی اپنی آواز ہے۔ لتا نے گانے کو سر دیا ،نیا انداز دیا اور ایسی الہامی آواز سے نوازا کہ اب بھی جگہ جگہ لتا جی کے گانے اپنا سر بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ اس عظیم گلوکارہ کو اب یہ معلوم ہوگیا تھا کہ کس کے لئے کس صورتحال میں گانا ہے۔ یہ دنیا کی وہ واحد گلوکارہ ہے جسے یہ سمجھ ہے کہ الفاظ پردھیان دینا کتنا اہم ہے۔ کبھی موقع ملے تو لتا جی کا یہ گانا ضرور سنیئے ،دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے،یہ کہاں آگئے ہم۔ ان دونوں نغموں کی ادائیگی کیسے کی گئی ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لتا جی لفظوں کو کتنا سمجھتی ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اداکاراوں اور اداکاروں کی عزت تھی،پروڈیوسر کی عزت تھی ،انہیں ایوارڈز دیئے جاتے تھے ،لیکن سنگرز کے لئے کسی قسم کے ایوارڈز کی کیٹاگری ہی نہ تھی ،لیکن اب منظر بدل گیا تھا ،لتاجیسی ماہان گلوکارہ کی وجہ سے سنگرز کو بہت زیادہ اہمیت ملنا شروع ہو گئی ، سنگرز کو بھی ایوارڈز ملنا شروع ہو گئے تھے۔ لتا جی گیت لکھنے والوں کا بہت احترام کرتی ہیں ،کہتی ہیں اصل کمال یہ گیت کار کرتے ہیں کیونکہ اچھے الفاظ سے ہی شاہکار گانے تخلیق ہوتے ہیں۔ الفاظ ہی کی وجہ سے سنگرز کے سروں میں دلکشی اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ لتا جی کی گائیکی کی وجہ سے گیت کاروں کی عزت افزائی کی جانے لگی۔ وہ دنیا کی وہ واحد سنگر ہیں جو ہمیشہ ایک ایک لفظ کا حق اداکرتی ہیں۔ اس عظیم سنگر کی وجہ سے گلوکاروں کو رائلٹی ملنا شروع ہو گئی۔ لتا جی نے عزت ،دولت اورشہرت کمائی،ساتھ ساتھ دنیا کو یہ بھی بتایا کہ گائیکی کتنا اہم آرٹ ہے۔ ان کی گائیکی میں دلچسپی کبھی کم نہیں ہوئی،اس لئے آج بھی وہ جو گاتی ہیں ،کمال کردیتی ہیں۔

ایک انٹرویو کے دورا ن انہوں نے کہا کہ وہ دنیا کے لئے نہیں ،اپنے لئے گاتی ہیں ،اس لئے کہ انہیں گائیکی کی وجہ سے سکون و راحت ملتی ہے۔ کہتی ہیں جب انسان خود کے لئے گاتا ہے تو کمال کردیتا ہے۔ لتا نے خود ایک زمانے میں اعلان کیا تھا کہ انہیں اب ایوارڈز نہ دیئے جائیں۔ عزت ،شہرت اور بے تحاشا دولت کے باوجود وہ سادہ زندگی گزار رہی ہیں۔ عام مڈل کلاس خاتون کی طرح زندگی گزارتی ہیں۔ ان میں کسی قسم کا ناز نخرہ نہیں ہے ،بہت ہی قریبی دوستوں کے ساتھ ہنستی مسکراتی ہیں۔ ایک پروقار اور باعزت خاتون کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔ لتا جی کو کرکٹ کے کھیل سے گہری دلچسپی ہے۔ سچن ٹنڈولکر ان کے پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت اچھی گٹارسٹ ہیں۔ ایک عجیب و غریب اور معصوم سا شوق بھی انہیں ہے ،وہ دنیا بھر میں جہاں بھی جاتی ہیں،کسینوز میں جواٗ کھیلتی ہیں۔ کہتی ہیں جواٗ کھیلنا انہیں پسند ہے۔ کھانا پکانے کا اور کھانا کھلانے کا انہیں بہت شوق ہے۔ کہتی ہیں جب وہ اچھا کھانا پکاتی ہیں ،اور لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں ،تو بہت اچھا لگتا ہے ، ایسے ہی جیسے اچھے گانے کی تعریف کی جائے۔ لتا جی گائیکی کی دنیا کا ایک حسین سمندر ہیں ،جس کی حدوں کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ سنگیت کے سمندر کی وہ حقیقی شہزادی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).