مظہر کلیم: اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا


قریب قریب بیس برس قبل کی بات ہے کہ بڑے بھائیوں کوعمران سیریز  کے ناول پڑھتے دیکھ کر ہمیں بھی یہ شوق چرایا کہ اب ٹارزن اور عمرو عیار سے ہمارا معیار بلند ہونا چاہیے۔ بڑے بھائی کی منت سماجت کی مجھے بھی ایک آدھ ناول عطا فرمائیں۔ کافی سوچ بچار کے بعد بڑے بھائی صاحب نے حاتم طائی کی قبر پر کئی لاتیں رسید کرتے ہوئے، مظہر کلیم کا شہرہ آفاق ناول ”ناقابل تسخیر مجرم“ اور ”موت کا رقص“ پڑھنے کو دیے۔ پھر یہ عاجز مظہر کلیم کی تحریر کا ایسا دیوانہ ہوا کہ دعویٰ کرتا ہے عمرا ن سیریز کا کوئی ایک ناول بھی نہیں جو اس نے ایک مرتبہ سے زیادہ نہ پڑھا ہو۔ کئی ناول تو بیسیوں مرتبہ پڑھے، اتنی دفعہ کہ ان کے پلاٹ اور مد و جزر تک زبانی یاد کر لیے۔ مظہر کلیم کی تحریر کا ایسا نشہ تھا کہ آج تک کم ہونے کا نام  نہیں لیتا۔

چند روز قبل یہ افسوس ناک خبر ملی کہ میرے بچپن کا پسندیدہ رائٹر اب اس جہان فانی سے کوچ کر گیا ہے۔ دل کو ایسا گہراصدمہ پہنچا کہ بیان سے باہر۔ کئی دوستوں سے تعزیت کی مگر دل کو تسلی کہاں ہوتی ہے، لیکن خدا کی مرضی کے آگے کسی کی کیا چلتی ہے۔

مظہر کلیم صاحب کی تحریروں کی سب سے خاص بات جس نے مجھے از حد متاثر کیا، وہ ان کا جاسوسی کہانی کو بیان کرنے کا اچھوتا انداز اورقاری کی  دل چسپی کو کہیں بھی ٹوٹنے نہ دینا ہے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ ان کا ناول پڑھتے ہوئے بوریت محسوس ہو۔ جب بھی ان کا کوئی ناول میرے ہاتھ آتا، تما کام چھوڑ کھانا، پینا، کھیل وغیرہ سب پس منظر میں چلے جاتے۔ سب سے پہلے ناول ختم کرنا، عظیم مقصد قرار پا جاتا۔ ہمارے چھوٹے سے شہر میں ایک یا دو لائبریریوں ہی سے یہ ناول دستیاب ہوتے تھے۔ چناں چہ  ہم سب دوستوں کی کوشش ہوتی تھی کہ مہینے کے آغاز میں جیسے ہی نیا ناول آئے، سب سے پہلے وہ ہمارے ہاتھ تک پہنچے۔ناول کے حصول کی اس کوشش کا بھی اپنا ہی مزا تھا۔ ناول پڑھنے کے بعد کہانی اور کرداروں کو دوستوں کے ساتھ ڈسکس کرنے سے ناول کی دہرائی روزانہ کی بنیاد پر ہوتی۔

مرحوم مظہر کلیم صاحب کی دوسری سب سے بڑی خصوصیت عمران سیریز کے کرداروں کو بیان کرنا تھا۔اگرچہ عمران کا کردار مظہر کلیم صاحب سے پہلے ابن صفی صاحب نے  متعارف کروایا لیکن علی عمران کے کردار کو جو خوب صورتی اور کشش مظہر کلیم نے اپنے قلم  کے لا زوال فن سے دی وہ بے مثال ہے۔ مظہر کلیم کی عمران سیریز کے بعد ابن صفی، ظہیر احمد اور دیگر مصنفین کی عمران سیریز کو بھی پڑھنے کی موقع ملا لیکن طوعاً و کرہاً  ہر دفعہ دوبارہ مظہر کلیم کی تحریروں کی طرف ہی آنا پڑا۔ اس کی بنیادی وجہ مظہر کلیم کے بیان کردہ کرداروں کی  خوب صورتی  اور ڈویلپمنٹ  تھی۔ عمران میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو کسی بھی سپر ہیرو میں ہونا چاہیں۔ جولیا میں من چاہی محبوبہ والا مکمل روپ تھا۔ تنویر کے کردار کے بغیر جولیا اور عمران کی لو سٹوری بے کار ہو جاتی۔ کپٹین شکیل کی ذہانت اور متانت لاجواب تھی۔ ٹائیگر، جوزف اورجوانا، عمران کے شاگردوں  کے کرداروں پر پورے اترتے دکھائی دیتے تھے۔ علیٰ ہذا القیاس دیگر کردار بھی اپنی اپنی جگہ پر ایسے فٹ بیٹھے دکھائی دیتے کہ گویا وہ حقیقی روپ رکھتے ہیں۔

مظہر کلیم صاحب کی تیسری بڑی خصوصیت ان کا تخیل اور جاسوسی ادب میں وسعت پیدا کرنا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ زندگی کا کوئی بھی ایسا پہلو ہوگا، جس میں بارے میں انھوں نے جاسوسی ناول نہ لکھا ہو۔ سیاست، مذہب، تاریخ، ثقافت، سسپنس، زراعت، ٹیکنالوجی، سائنس، کھیل وغیرہ۔ غرض کوئی بھی ایسا پہلو نہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے، مظہر کلیم صاحب نے  جاسوسی ناول نویسی نہ کی ہو۔ مظہر کلیم کے تخیل کی یہ وسعت اور اس وسعت کو کامیابی سے ناول میں ڈھالنا، مظہر کلیم کے بے مثال فن اور مہارت پر دلالت کرتی ہے۔

مظہر کلیم کا جاسوسی ادب ان کے وسعت مطالعہ، وسعت تجربہ اور ماہر ناول نویس ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ کالم میں الفاظ کی محدود تعداد مجھے یہ اجازت نہیں دیتی کہ میں اپنے دل کی تمام باتیں لکھ سکوں۔ مظہر کلیم کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا پر ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ مظہر کلیم نے ایک کامیاب مصنف (تقریباً 5 ہزار چھوٹی بڑی کتب کے مصنف) کے طور پر زندگی گزاری۔ آپ کے مداح اور اور قاری آپ کو ہمیشہ یاد  اور زندہ رکھیں گے۔ اردو ادب سے مظہر کلیم صاحب کا نام محو ہونا ایک ناممکن امر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).