ہم کب بڑے ہوں گے ؟


کسی نے کیا خوب نکتہ اٹھایا ہے کہ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور یہ بات آئین کے اندر انگریزی زبان میں لکھی ہوئی ہے۔ پاکستان کی عمر ستر سال سے تجاوز کر گئی لیکن ہم اتنے بڑے نہیں ہوئے کہ یا تو اردو کو پوری طرح اپنا لیں یا پھر انگریزی کو بھی آئینی طور پر پاکستان کی دوسری زبان قرار دے دیں. آپ چونک کیوں گئے کینیڈا کی دو سرکاری زبانیں فرنچ اور انگلش ہو سکتی ہیں تو پاکستان کی دو سرکاری زبانیں اردو اور انگلش کیوں نہیں ہو سکتیں۔ پتا نہیں ہم یہ ابہام کب دور کریں گے. انگریزی تو دوسری بیوی ہو گئی محبوب تو ہے پر خاندانی بیوی کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اب ہمیں انگریزی اور اردو دونوں کی بورڈ ایسے متوازی طور پر استعمال کرنا پڑتے ہیں گویا جڑواں بچے ہوں۔ دونوں کو ایک سی توجہ اور پیار چاہیے۔

کچھ دن ہوئے رمضان المبارک کے آغاز پر خبر ملی کہ ایک یونیورسٹی نے اعلامیہ جاری کیا ہے کہ لڑکا اور لڑکی اگر ساتھ بیٹھیں تو ان کے درمیان چھے انچ کا فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ہمیں تو صرف یہ فکر ستا رہی ہے کہ رمضان المبارک کے اختتام پر کیا یہ حکم نافذ العمل رہے گا یا کالعدم قرار پائے گا؟ اور یہ طلبا و طالبات کب اتنے بڑے ہوں گے کہ یہ خود فیصلہ کر سکیں کہ ہم جماعتوں کے ساتھ کتنے انچ کے فاصلے پر نشست رکھی جا سکتی ہے؟

رمضان المبارک ہی کے آغاز پر ایک اور خبر ملی تھی کہ افطار اور سحر کے درمیانی وقفے میں انٹرنیٹ پر پابندی رہے گی. ہمارا ذاتی خیال ہے کہ یہ حکم جاری کرنے والی ہستی کے اپنے ذاتی اہل و عیال نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد باقی قوم کو بھی مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہم کب اتنے بڑے ہوں گے کہ امی جان ہمیں نظم و ضبط کی پابندی کی تلقین نہ کریں ہم خود ہی یہ فیصلہ کر لیں کہ ہمیں کب،کتنا اور کس وقت انٹرنیٹ استعمال کرنا ہے؟

ابھی کچھ دیر پہلے ایک دوست نے ایک بیمار بچے کی تصویر ان باکس کی جس میں تحریر تھا کہ اس تصویر کو جتنے لوگوں کو آگے روانہ کریں گے، تصویر والی بچی کو فی سینڈ ایک ڈالر ملے گا اب پھر سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب اتنے بڑے ہوں گے، کہ ہمیں پتا لگ جائے کہ اس طرح کے میسج فارورڈ کرنے سے کوئی ڈالر نہیں جمع ہوتے۔ ہمارا انٹرنیٹ کا بل ضرور بڑھتا ہے۔ یہ ڈالر کس کو ملتا ہے کیا معلوم۔

ایک اور میسج بڑے تواتر سے ملتا رہتا ہے کہ اگر پیسے نکالنے والی مشین پر کوئی آپ کو پیسے نکا لنے پر مجبور کرے تو اپنا پن کوڈ معکوس (الٹا ) ٹائپ کرنے سے پولیس آپ کی مدد کو پہنچ جائے گی۔ بھلے لوگو پولیس پروٹوکول کی ڈیوٹی کرنے میں اتنی مصروف رہتی ہے کہ وہ کبھی نہیں پہنچے گی۔ آپ اپنی حفاظت کا بندوبست کریں، ویسے بھی یہ ایک فرضی کہانی ہے حقیقت سے اس کا لینا دینا نہیں۔

آئے دن واٹس ایپ پر ایک دم دار ستارے کے نمودار ہونے کی خبر ملتی ہے، جس کی مقناطیسی قوت اتنی زیادہ ہو گی کہ موبائل فون استعمال کرنے والوں پر شدید سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ آخر ہم کب اتنے بڑے ہوں گے کہ اس قسم کی خبروں کو اندھا دھند فارورڈ کرنے کے بجائے گوگل پر جا کر چیک کر لیں کہ آیا یہ خبر حقیقت ہے یا افواہ۔

ہماری دوست کی بیٹی نے کوئی کہانی پڑھی جس کے بعد اسے وہم ہو گیا تھا کہ اس کے بستر کے نیچے کوئی ہے۔ میری دوست بستر کے نیچے چھپ گئی اور جب بچی نے بستر کے نیچے جھانکا تو دونوں مل کر ہنسنے لگیں، اس طرح بچی کے وہم کو دونوں نے ہنس کر ٹال دیا۔ ہمیں بھی اب اتنے بڑے ہو جانا چاہیے کہ حقیقت اور وہم کا مطلب جان لیں۔

ہمیں تو لگتا ہے ہم خود بھی بڑے ہونا نہیں چاہتے، ہماری عمروں میں ماہ و سال کا اضافہ ہوتا ہے، سر میں سفیدی اور آنکھوں میں موتیا اتر آتا ہے لیکن ہم بڑے نہیں ہوتے۔ کیوں‌ کہ ہم جانتے ہیں کہ بوڑھا ہونا لازم سہی لیکن بڑا ہونا اختیاری ہے۔ ویسے بھی بڑا ہونا بہت مشکل ہے، ورنہ ہر کوئی بڑا ہو جاتا۔

جارج برنارڈ شا نے بڑی اچھی بات کہی تھی . ”جب آپ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ہنسنا بند نہیں کرتے، جب آپ ہنسنا بند کر دیتے ہیں تو آپ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔“ تو مسکراتے رہیں، ہنستے رہیں، بڑے ہو ئے ہیں، بوڑھے نہیں۔

جاتے جاتے ایک کام کی بات بتاتی جاؤں، خواتین بھی کبھی بڑی نہیں ہوتیں، یہ اکیس سال سے اکیس سال کی رہتی ہیں۔ ہر سال ان کی سال گرہ ہوتی ہے لیکن یہ اکیس سال سے اپنی بات پر قائم رہتی ہیں، قائم علی شاہ کی طرح جن کا کہنا ہے کہ وہ جب کالج میں تھے، تب بھی عمران خان ان کی ٹیم کے کپتان ہوا کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).