پتھر تو بہر حال دھکیلنا پڑے گا (مکمل کالم)


بندہ صبح اٹھتا ہے، ناشتہ کرتا ہے اور کام پر نکل جاتا ہے۔ عمر یونہی تمام ہو جاتی ہے۔ کسی کی زندگی عیاشیوں میں گزرتی ہے اور کسی کی کوڑے کے ڈھیر سے گلا سڑا پھل تلاش کرنے میں نکل جاتی ہے۔ کولن پاول بھی مر جاتا ہے اور اسامہ بن لادن بھی۔ بڑے سے بڑا فرعون بھی بالآخر مقبرے میں ہی دفن ہوتا ہے چاہے وہ مقبرہ اہرام مصر جیسا عالیشان ہی کیوں نہ ہو۔ انسان گناہ گار ہو یا نیکو کار، ہر دو صورتوں میں اسے مٹی تلے ہی جانا ہے۔ ’’مٹتا ہے فوتِ فرصت ِ ہستی کا غم کوئی، عمر ِعزیز صرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘(غالب)۔ پوری عمر بھی چاہے عبادت میں گزرا دیں، زندگی کی مدت ضائع ہونے کا غم کبھی نہیں مٹتا۔ ایسی صورت میں کیا زندگی یونہی گزار دینی چاہیے، بے مقصد، بے معنی ؟ یا اسے کسی مخصوص اندا ز میں گزارنا ضروری ہے ؟ ایسے سوالوں کا کوئی دو ٹوک یا لگا بندھا جواب تو نہیں ہوتا مگر یہ بہرحال ممکن نہیں کہ بند ہ اپنی پوری زندگی یہ سوچ کر گزار دے کہ بالآخر مرنا تو ہے، پھر کچھ بھی کرنے کا کیا فائدہ ! نہ نہ کرتے ہوئے بھی سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں یونانی دیو مالائی کہانیوں کی طرح مجھے یہی لگتا ہے کہ انسان کہیں بھی پہنچ جائے، ہر کوشش اور کامیابی بہر صورت موت پر ہی منتج ہوگی۔

سسیفس(Sisyphus) ایک یونانی دیو مالائی کردار ہے۔ وہ یونان کے ایک علاقے کا بادشاہ تھا، بے حد کائیاں اور چالاک۔ اُس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ دو مرتبہ موت کو جُل دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ قصے کے مطابق جب پہلی مرتبہ ’سیسیفس کی موت ہوئی ‘ تو اسے پاتال میں لے جایا گیا جہاں موت کے بعد روحوں کو قید کیا جاتا تھا مگر سیسیفس نے بڑی چالاکی سے وہاں موت کو ہی قابو میں کر لیا اور اسے زنجیروں سے باندھ دیا تاکہ آئندہ ’موت ‘ کسی انسان کی جان نہ لے سکے۔ بالآخر حرب کےدیوتا کو اِس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی جس کے نتیجے میں موت کو زنجیروں سے چھٹکارا ملا اور اُس نے دوبارہ انسانوں کی جان لینے کا اپنا کام شروع کیا۔ دوسری مرتبہ جب سیسسفس کو پھر پاتال لے جایا گیا تاکہ اُس کی موت کو یقینی بنایا جا سکے تو سیسیفس نے وہاں دیوتا کی منت سماجت کی کہ اُس کی ’موت ‘ پر اُس کی بیوی نے روایت کے مطابق وہ چڑھاوے نہیں چڑھائے اوروہ قربانی نہیں دی جو ایسے موقع پر واجب ہوتی ہے لہذا اسے دوبارہ زمین پر بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی بیوی کو یہ رسومات ادا کرنے پر قائل کر سکے۔ دیوتا کو رام کرنے کے لیے سیسیفس نے دیوتا کی بیوی، جو قدرے رحم دل تھی، سے بھی ا پیل کی کہ دیوتا سے سفارش کرے، بالآخر اُس کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور یوں و ہ دوسری مرتبہ بھی ’موت کو شکست ‘دینے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن جب اگلی مرتبہ دوبارہ جب اُس کی ’موت ‘ واقع ہوئی تو دیوتاؤں کے بادشا ہ زیس( Zeus)نے یقینی بنایا کہ سیسیفس کو عبرت ناک سزا ملے اور یہ عبرت ناک سزا ہومر نے اپنی شہرہ آفاق نظم آڈیسی ((Odysseyمیں بیان کی ہے۔ ہومر لکھتا ہے کہ سیسیفس ایک بہت بھاری پتھر کو پہاڑ کی چوٹی تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، پتھر بے حد وزنی ہے اور سیسیفس بد قت تمام اسے دھکیلنے میں کامیاب ہوتا ہے، لیکن جونہی وہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچتا ہے، پتھر لڑھک کر زمین پرواپس آجاتا ہے، سیسفس نئے سرے سے پتھر کو پہاڑ کی چوٹی تک دھکیلنا شروع کرتا ہے، مگر پتھرپھر سے لڑھک کر زمین پہ آ جاتا ہے، اور یوں یہ کبھی نہ ختم ہونے والا کام ہے جو سیسیفس کے ذمے ہے۔

انسانی زندگی کا المیہ بھی یہی ہے۔ اپنی زندگی میں ہم جتنی بھی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کیوں نہ کر لیں، ہماری موت کے ساتھ ہر مطلب دفن ہوجاتا ہے۔ ازل سے یہی کچھ ہو رہا ہے اورابد تک ہوتا رہے گا۔ بعض اوقات ہمیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کے معمولات بے معنی اور مضحکہ خیز ہیں، اِس کے باوجود ہم ان معمولات سے جان نہیں چھڑا پاتے اور روزانہ ایک ہی کام بار بار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہم اپنی زندگیو ں کے پتھر کو پہاڑ کی چوٹی تک دھکیل کر لے جاتے ہیں اور جونہی ہم چوٹی تک پہنچتے ہیں، پتھر لڑھک کر واپس زمین پہ آجاتا ہے اور ہم دوبارہ سے اسے پہاڑ تک دھکیلنے میں جُت جاتے ہیں۔ یہ ایک کار لا حاصل ہے جو سیسیفس کی طرح ہمیں ہر صورت کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں، مگر یہ کوشش بھی پتھر کو پہاڑ تک دھکیلنے سے مختلف نہیں ہوگی، فرق صرف اتنا ہوگا کہ پتھر دھکیلنے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔ یہ آسانی کیسے ہوگی ؟ اِس کا جواب اُن پانچ سوالوں میں پوشیدہ ہے جو ہم روزانہ اپنی بے معنی روٹین شروع کرنے سے پہلے خود سے پوچھ سکتے ہیں۔

پہلا سوال: آپ کے اختیار میں کیا ہے ؟ یہ کلیدی سوال ہے۔ اگر کوئی کام آپ کو مجبوری کے عالم میں کرنا ہے تو کیا اُس کام کو چھوڑنے کا اختیار آ پ کو حاصل ہے۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس پر عمل کریں اور اگر ناں میں ہے تو اُن طریقوں کے متعلق سوچیں جن پر عمل کرنے سے آپ کا اختیار بڑھ سکتا ہے۔ زندگی کی بہت سی خوشیاں آپ کے اختیار میں ہوتی ہیں اور بہت سے غم آپ کے اختیار سے باہر، دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کہ جن باتوں پر آپ کا اختیار ہے انہیں اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے کیا آپ کچھ کر رہے ہیں یا اسی کا نام مجبوری رکھ چھوڑا ہے ؟ دوسرا سوال : آپ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ؟ اِس سوال کا جواب بھی آپ کی زندگی بدلنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر آپ کے حلقہ احباب میں مایوس اور حاسد قسم کے لوگ ہیں تو فوراً اُن سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ یہ اِس لیے ضروری ہے کہ جو لوگ آ پ کے ارد گرد ہوتے ہیں وہ آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، آپ کی زندگی اُن کی خواہشات کے تابع ہو جاتی ہے اور یوں آپ وہی اوڑھنا بچھونا شروع کر دیتے ہیں جو وہ لوگ چاہتے ہیں، اِس لیے اپنی زندگی کو اپنی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے حلقہ احباب میں مثبت سوچ کے حامل افراد ہوں۔ تیسرا سوال: کیا یہ کام کرنا بہت ضروری ہے ؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ سوال خود سے پوچھیں اور بہت سی قباحتوں سے خود کو بچا لیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم فضول چیزوں میں وقت برباد کر رہے ہوتے ہیں، اُس وقت صرف یہ ایک سوال بار بار خود سے پوچھیں اور دیانتداری سے اُس کا جواب دیں، زندگی آسان ہو جائے گی۔ چوتھا سوال: آپ کی زندگی کا سب سے اہم کام کیا ہے؟ اگر آپ کو اِس سوال کا جواب ہی معلوم نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ کہ آیا آپ اِس کام کو اپنے روز مرہ کے معمولات میں اہمیت بھی دے رہے ہیں یا نہیں ؟جب تک آپ کے دماغ میں اِس سوال کا واضح جواب نہیں ہوگا اُس وقت تک آپ کو یہ اندازہ بھی نہیں ہو سکے گا کہ آپ نے زندگی میں اہم کام کو انجام دینے کے لیے کون سے اقدامات کرنے ہیں۔ پانچواں سوال:سعی لا حاصل ہی سہی، لیکن اگر میں یہ سب کچھ نہیں کروں گا تو کیا پھر بھی میں خوش اور آسودہ رہ پاؤں گا؟ یہ ہے وہ اصل سوا ل جس کا جواب دینا مشکل ہے۔ ہم زندگی کے تمام کام آئیڈیل اندازمیں ہی کیوں نہ کر لیں، آخری تجزیے میں یہ احساس بہرحال کچوکے لگائے گا کہ پتھر نے تو بہر حال لڑھک کر واپس ہی جانا ہے۔ لہذا ایسے کسی شخص کو تلاش کرنا شاید نا ممکن ہے جو یہ دعوی کرے کہ اگرچہ یہ زندگی بے معنی ہے اور میں یہ راز پا چکا ہوں اِس لیے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ پتھر تو بہرحال دھکیلنا پڑے گا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments