چھوٹے دماغ کو صرف پاکستان کی فکر ہے اور بڑے کو کل عالم کی


وہ مجھے کوئٹہ میں ملا۔ ٹیکسی میں بیٹھتے ہی مجھے پتہ چل گیا تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور مذہبی آدمی ہے۔ کوئٹہ میں داڑھی رکھنا ایک عام سی بات ہے لیکن ہر داڑھی والے کا مذہبی ہونا کوئی ضروری نہیں۔ بے شمار بلوچ اور پٹھان داڑھی والے مل جائیں گے جن کی زندگی میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر مذہبی ہوتے ہیں۔ اذان کی آواز آتے ہی مسجد کی طرف دوڑتے ہیں یا مُصلیٰ تلاش کرتے ہیں کہ نماز پڑھ لیں مگربقیہ زندگی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے وہ ہرکام کرتے ہیں جس کی مذہب اجازت نہیں دیتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی اتنی متضاد بھی ہوسکتی ہے، کہاں سختی سے نماز کی پابندی اورکہاں ہر وہ کام جس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

میں کوئٹہ شہر میں کافی آتا جاتا تھا۔ اور ادھر کچھ دنوں سے آنا جانا زیادہ ہی ہوگیا تھا جب سے مجھے سویڈن کے ایک سرکار کی ایک امدادی ایجنسی میں نوکری ملی تھی۔ یہ ایجنسی دنیا بھر کے غریب ممالک میں تعلیم پھیلانے اور صحت کے نظام میں اصلاحات کے لئے سرمایہ خرچ کررہی تھی۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کی حکومتوں کو غیر مشروط امداد دی جارہی تھی کہ وہ بچوں کی تعلیم کو ممکن بنائیں اور بنیادی صحت کے مراکز کو اس قابل بنائیں کہ وہاں مریضوں کا علاج ہوسکے۔ صوبائی حکومتوں کے اس کام کی نگرانی اور رپورٹنگ کے لئے مجھے نوکر رکھا گیا تھا۔ یہ بہت اچھی نوکری تھی۔ اچھی تنخواہ، گاڑی، صحت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اور جب بھی میں کراچی سے باہر جاتا تھا تو مجھے روزانہ کے دس ہزار روپے الگ سے ملتے تھے۔ اتنی اچھی تنخواہ اور سہولتوں کے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ میں ایمان داری سے اپنے فرائض انجام نہ دوں۔ مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ میں بڑی محنت اور دل جمعی کے ساتھ کام کررہا تھا۔

میں کوئٹہ میں پہلی دفعہ اس وقت آیا تھا جب افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت تھی۔ یہ شاید انیس سو اکہتر بہتر کی بات ہے۔ کوئٹہ ایک خوبصورت صاف ستھرا شہر تھا۔ جناح روڈ پر چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور چائے خانوں کی بھرمار تھی۔ شہر غیر ملکی سیاحوں سے بھراہوا ہوتا تھا۔ یورپ سے لاکھوں سیاح ترکی ایران اور افغانستان کے راستے کوئٹہ آتے جہاں سے وہ لاہور کے راستے ہندوستان اور نیپال تک جاتے تھے۔ کچھ اسی راستے سے اپنے ملکوں کو واپس چلے جاتے اور زیادہ تر کھٹمنڈو سے جہاز کے ذریعے یورپ وامریکہ واپس لوٹ جاتے تھے۔

اس زمانے کا کوئٹہ ایک علمی شہر تھا۔ کالجوں میں طالب علم پڑھتے تھے، نئی نئی بلوچستان یونیورسٹی میں سارے ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو فیکلٹی کے طور پر جمع کرلیا گیا تھا۔ بلوچی اور پشتو زبان کی ترقی کے لئے کام ہورہا تھا۔ سرکاری طور پر اردو زبان کی سرپرستی کی جارہی تھی، ادبی سنگت کے اجلاس ہوتے جن کی خبریں کراچی کے اخباروں میں پابندی سے چھپتی تھی۔ پشتو ادبی جرگہ ہوتا تھا۔ شہر میں کتابوں کی دوکانیں تھیں۔ بے شمار بلوچ اور پٹھان طالب علم دوسرے صوبوں میں پڑھنے جاتے تھے۔ تعلیم سے دلچسپی ایک عام بات تھی۔ اُردو، انگریزی اور بین الاقوامی ادب کے بارے میں محفلیں منعقد ہوتی رہتی تھیں۔ کوئٹہ کا نام سنتے ہی دل و دماغ میں ایک احساس بجلی کی طرح دوڑتا چلا جاتا تھا۔

وہ زمانہ اچھاتھا۔ افغانستان میں گوتم بُدھ کا بڑا سا مجسمہ ایستادہ تھا۔ وہاں کے مسلمانوں کے منہ کو خون نہیں لگا تھا، معصوم بے فکر نوجوانوں کو ذبح کرنے کا رواج نہیں تھا لڑکیوں کے سر پر گولی نہیں ماری جاتی تھی۔ لوگ امن پسند تھے نوکریوں کی اس وقت بھی کمی تھی بے روزگاری اس وقت بھی عام تھی۔ وڈیروں، سرداروں، خانوں کا استحصالی نظام اس وقت بھی موجود تھا ایران وافغانستان میں بادشاہت تھی پاکستان و ترکی میں آمریت تھی لیکن ایسی کوئی تحریک نہیں تھی کہ مخالفوں کے گلے قلم کردیئے جائیں، زبان ونسل کی بنیاد پر معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے، اسکرٹ پہن کر گھومنے والی غیر ملکی خواتین کو تیزاب سے جلانے کی دھمکی دی جائے، موسیقی سننے والے نوجوانوں کو کوڑے مارے جائیں اور رقص کرنے والی بازاری عورتوں کو سنگسار کیا جائے۔ دنیا بدلی نہیں تھی۔

مجھے یاد ہے میں ابّا کے ساتھ ان کے ایک دوست کے جو گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں انگلش پڑھاتے تھے، والد صاحب کے انتقال پرتعزیت کے لئے آیا تھا۔ کوئٹہ کا گورنمنٹ کالج ایک اچھا تعلیمی ادارہ تھا جہاں بہت سارے غیر بلوچی غیر پٹھان استاد تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے اور اس وقت تک قوم پرست بلوچوں نے پنجابی استادوں کو قتل کرنے کا سلسلہ نہیں شروع کیا تھا۔ اس وقت کے پٹھان، بلوچ آج کے تعلیم یافتہ بلوچ قوم پرست اور مذہبی پٹھانوں سے بہتر تھے جن کے ہاتھوں میں اسلحہ اور دلوں میں نفرت نہیں تھی۔

اس زمانے میں افغانستان جانا اتنا آسان تھا کہ ابا جان سے اجازت لے کر میں نے افغانستان کے قونصلیٹ جنرل کے دفتر سے افغانستان جانے کا پرمٹ حاصل کیا۔ میں اور ابا جان کے دوست کا بیٹا تیمور چھ دن کے لئے افغانستان چلے گئے۔ کوئٹہ سے چمن کے راستے، قندھار، ہرات اور کابل گھوم کر واپس کوئٹہ آگئے تھے۔

اس وقت قندھار کے بازار الف لیلہ کی کسی کہانی کے کسی شہر کی بازار کے طرح تھے۔ پرانی عمارتیں، روایتی لباس پہنے ہوئے پٹھان عورتیں اور مرد، بے شمار قہوے خانے جہاں پشتو اور فارسی کے گانے چل رہے تھے اور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہوتے تھے۔ قندھار اور کابل میں ہی میں نے لڑکیوں کو اسکول اور کالجوں میں آتے جاتے دیکھا۔ سینما ہال میں انگریزی اور ہندوستانی فلموں کا شو دیکھا اور مسجدوں میں نمازیوں کا اجتماع بھی۔ کابل یونیورسٹی کی کینٹین میں طالبات کی موجودگی میں چائے پی اور خوبصورت افغان لڑکیوں کو دیکھ کر حیران بھی ہوا جو مجھے انگریز لگی تھیں۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے اس وقت کی کابل یونیورسٹی کو دیکھ کر میرے دل میں شدید خواہش ہوئی تھی کہ یہاں آکر پڑھا جائے، واپس آکر جب ابا سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے یہاں کی تعلیم تو مکمل کرلو پھر دیکھا جائے گا۔

اس وقت افغانستان میں سعودی، یمنی اور مصری مسلمان نہیں آئے تھے۔ اس وقت وہاں لڑکیوں کو کوڑے نہیں لگتے تھے، ان کے سر نہیں قلم کیے جارہے تھے اور نہ ان کے اسکولوں کو تباہ وبرباد کیا جارہا تھا۔ بادشاہت ضرور تھی، غربت بھی موجود تھی مگر لگتا تھا کہ قوم کسی رخ پر سفر کررہی ہے۔ ترقی کا سفر، اعتماد کا سفر اورسب سے بڑھ کر یہ کہ برداشت کا سفر۔ کابل میں مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی، پارسی سب ہی رہ رہے تھے امن و امان کے ساتھ، خوشی خوشی، نہ قتل نہ غارت گری۔ وہ ایک مختلف افغانستان۔ افغانستان کو کسی کی بہت بری نظر لگی تھی۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2