ریحام خان کی عمران سیریز اور عوام میں کتب بینی کا رحجان


ویسے تو خان صاحب کی زندگی کی کہانی عمران سیریز کی کہانیوں کی ما نند سنسنی خیزی، رومانس، ایڈونچر، تھرل اور پتہ نہیں کیا کیا سے عبارت ہے، لہٰذا اس میں ہر نیا موڑ دلچسپی لے کر آتا ہے۔ اس میں ایکسٹو بھی آتا ہے جو نقاب پہن کر کرداروں کی ڈوریاں ہلاتا ہے اور رنگ برنگی ہیروئینوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ اب تک اس کہانی میں ان گنت ہیروئینوں کی انٹری ہو چکی ہے ہر بار لگتا ہے یہ ہی مستقل ہیروئن ہو گی لیکن کچھ عرصے میں پھر نئی ہیروئن آ جاتی ہے۔

اب تازہ ترین وقوعہ کے مطابق ان کی کہانی کی ایک سابقہ ہیروئن نے پاکستانی عوام میں کتب بینی کا رحجان بڑھانے کے لئے ایک دلچسپ کتاب تحریر کر دی ہے۔ ویسے تو یہ ہمارے فائدے کی بات ہے کہ پاکستانی عوام جو کتابوں سے دور ہوتے جا رہے تھے اب دوبارہ کتابوں سے محبّت شروع کرنے ہی والے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک رٹائرڈ فوجی بھائی کی کتاب پر بھی بڑا شور و غوغا مچا اور ہم نے اس بور سی کتاب کو پہلو بدل بدل کر پڑھا لیکن پھر ایک نیک بی بی کو ہماری اس حالت پر رحم آیا اور اس نے اس ساری بوریت کا تدارک کرنے کے لئے اپنی آنے والی کتاب کسی بھلے لوگ کو ای میل کی اور یہ ای میل یکا یک شی میل کا روپ دھار کر پتا نہیں کیسے اور کب لیک ہو گئی۔ چلو یہاں تک بھی خیر تھی پھر پتہ نہیں کیسے سب دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑا ئے اور اپنے اپنے تصور میں رنگ بھر کے اس کتاب کے فرضی اقتباس بھی بنا لئے اب حال یہ ہے کہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ جس قسم کے اقتباس سامنے آ ئے ہیں ان سے تو صاف ظاہر لگتا ہے کہ جس طرح دوا خریدنے کے لئے فارمیسی والے کو پہلے مستند ڈاکٹر کا نسخہ دکھانا پڑتا ہے اسی طرح جب یہ کتاب مارکیٹ میں آ ئے گی تو اس کا نسخہ حاصل کرنے کے لئے پہلے نکاح نامہ دکھانا پڑے گا۔

ویسے مجھے پورا یقین ہے جیسے پاکستانی کر کٹ ٹیم امیدوں کی لہلہاتی فصل پر ٹریکٹر چلا دیتی ہے با لکل اسی طرح یہ کتاب بھی ہمیں مایوس ہی کرے گی۔ آپ نے دیکھا ہو گا جب بھی کوئی فلم ریلیز ہونے والی ہوتی ہے تو بڑ ی گرما گرمی ہوتی ہے کہ اس میں ”وہ“ والے سین ہیں آپ اس انتظار میں اٹین شن رہتے ہو ئے فلم دیکھتے ہیں ایک انگلی فارورڈ کے بٹن پر تیار دھری ہوتی ہے کہ کب مطلوبہ سین آئے اور آپ اپنی پاکیزگی کی حفاظت کرتے ہوئے فارورڈ کریں، پر یہ کیا فلم ختم ہو جاتی ہے اور انگلی سو جاتی ہے۔ تب یہ عقدہ کھلتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ ہمارے سہانے سپنے بکھر گئے ہیں ہمیں لالی پوپ دے کر یہ بور فلم پوری کی پوری دکھائی گئی ہے۔

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑ یں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا

1993 کے آس پاس کی بات ہے معروف اینکر پرسن رؤف کلاسرا کی پہلی کتاب آئی جو مشہور ناول گاڈ فادر کا اردو ترجمہ تھی۔ میں نے یہ کتاب ہوسٹل میں پڑھی تھی یہ کتاب ہوسٹل آتے ہی ہاٹ کیک بن گئی۔ لڑکیاں جوق در جوق کتاب مانگنے آتیں، میں نے نوٹ کیا کہ جو کتاب پڑھنے میں مجھے دن لگے تھے وہ کتاب گھنٹوں میں پڑھ کر واپس کر دی جاتی تھی۔ مجھے اپنی کم رفتاری پر بڑا افسوس ہوا۔ ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے کتاب کی ورق گردانی کی تو یہ عقدہ کھلا کہ تمام کتاب میں ”کام کی باتوں ” کو ہائی لائٹ کر دیا گیا تھا اور سب ان ہائی لائٹ شدہ ٹیکسٹ سے ہی مستفیض ہو رہے تھے۔

ابھی پچھلے ہفتے وسی بابا نے بھی بڑا مایوس کیا۔ انھوں نے آرٹیکل لکھا ”چل دل ایک اور عشق کریں“۔ اس آرٹیکل میں ایک لمبی کہانی لکھی جس میں دوستوں کے ساتھ تنہا دیار غیر بھی گئے، ہوٹل میں خوبصورت روسی لڑکیاں بھی ان کے کمرے کے چکر لگاتی رہیں لیکن پھر بھی کہانی بے رنگ ہی رہی۔ اب ایسے حالات میں یہ ایک چھوڑ سو عشق کر لیں بات نہیں بننے والی۔

بس دوستو اس آنے والی کتاب سے بھی زیادہ تو قعات وابستہ نہ کریں۔ زیادہ سے زیادہ کیا لکھا ہو گا کہ خان صاحب کسی کا دل نہیں توڑتے ہاں تو اس میں کیا برا ہے۔ یہ بھی لکھا ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کی بہت سی سہیلیاں ہیں یہ بات تو تو ہمیں بیس سال پہلے ظہیر احمد بابر نے اپنی کتاب پارلیمنٹ سے بازار حسن تک میں بتا دی تھی۔ کم از کم دو درجن سہیلیوں کے نام تو لکھے ہیں انہوں نے۔ اب اتنے سالوں میں کچھ درجن اور اضافہ ہو گیا ہو گا۔ اب کیا نیا بم پھوٹنے والا ہے یہاں۔ ارے ہاں مذکورہ کتاب میں پاکستانی سیاست کے ہر نامور شخص کی غیر نصابی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اتنے سالوں میں کسی نے بھی مصنف کے خلاف کوئی تادیبی کارروا ئی نہیں کی۔ یہ کتاب تھوڑا سا ڈھونڈنے پر آسانی سے انٹر نیٹ پر مل جائے گی اور سب کو اپنے اپنے محبوب لیڈر کی رنگ برنگی کہانی پڑھنے کا موقع مل جائے گا تو وقت کی قدر کریں اگر نیک بی بی کی کتاب آنے کا انتظار نہیں ہو رہا تو اتنے دن مذکورہ کتاب کو ہائی لائٹ کریں۔

آنے والے الیکشن میں کوئی پارٹی ابھی تک اپنا منشور ہائی لائٹ نہیں کر پائی، پر میڈیا نے سابقہ اہلیہ اور نا اہل وزیر ا عظم کو ہی لائم لائٹ میں لیا ہوا ہے۔ ارے بھلے لوگو کچھ حقیقی مسائل کی بات کر لو۔ آج شہباز شریف صاحب نے کہہ دیاکہ وہ دوبارہ حکومت میں آ کر ڈیم بنائیں گے، عوام کو بجلی کی تاریخ پر تاریخ دے کر ڈیم فول تو پہلے ہی بنا چکے اب کیا نیا کریں گے۔
ہم معصوم عوام تو بس کسی معجزے کا انتظار کر سکتے ہیں سو کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).