ریحام کی کتاب اگر درجن بھر افراد کے پاس ہے تو وہ لیک ہو جائے گی


چھے جون 2018 کو لندن کے دی ٹائمز میں ہارون جنجوعہ اور ہیو ٹاملنسن کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کے مطابق ریحام خان نے دعوی کیا ہے کہ عمران خان کے حامیوں نے ان کا کمپیوٹر ہیک کیا ہے اور ان کی کتاب کا مسودہ اس کے پبلش ہونے سے چند دن پہلے ہی چوری کر لیا گیا ہے۔ مضمون میں ریحام خان کا قول درج ہے کہ ”تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ ان کے پاس میرا مسودہ ہے اور یہ لگتا ہے کہ انہوں نے میرا مواد چوری کیا ہے۔ ۔ ۔ شاید میری ایمیل ہیک کر کے اسے پھیلا رہے ہیں۔ “

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حمزہ علی عباسی جس مسودے کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ واقعی ریحام خان کا لکھا ہوا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون میں چار جون 2018 کو ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں ایک قانونی نوٹس کا ذکر ہے جو وکلا کی ایک فرم کی جانب سے ریحام خان کو بھیجا گیا ہے۔ یہ نوٹس کہتا ہے کہ اسے وکلا کی فرم نے سید ذوالفقار بخاری، اعجاز رحمان، وسیم اکرم اور انیلا خواجہ کی طرف سے بھیجا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ان چار افراد کو گمنام ذرائع سے ایسا مسودہ ملا ہے جو بظاہر آپ کی آپ بیتی ہے۔ ان کے علاوہ حمزہ عباسی، مراد سعید، پرویز خٹک، عمر فاروق، محسن عزیز، اسد عمر، ذاکر خان، میاں یوسف صلاح الدین نے بھی پریشانی ظاہر کی ہے اور وہ آپ کے خلاف پاکستان میں لیگل ایکشن لے سکتے ہیں۔

اس قانونی نوٹس میں ریحام خان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسودے کو اس کی موجودہ حالت میں شائع نہیں کریں گی۔ اس کے علاوہ یہ کہا گیا ہے کہ اگر یہ مسودہ عام ہو جائے تو اس صورت میں وہ پیشکش کریں کہ وکلا کے کلائنٹس کی ریپوٹیشن کو پہنچنے والے نقصان کے معاوضے کی ادائیگی کیسے کریں گی۔

اب اگر ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یہ کتاب صرف عمران خان کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے لکھی گئی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اس وقت ریحام خان اپنا مقصد حاصل کر چکی ہیں یا نہیں؟ ہمارے ناقص قانونی علم کے مطابق کسی فرد کے کمپیوٹر میں موجود مواد اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ جب تک وہ اس کی عوامی تشہیر نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس پر اپنے الٹے سیدھے خیالات یا جھوٹ سچ اپنے کمپیوٹر کے اندر لکھنے پر اس سے ہرجانے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اب اگر کوئی ہیکر اس مواد کو چرا کر دنیا کو بانٹنا شروع کر دے تو کیا وہ لکھنے والا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اس کا درست جواب تو کوئی قانون دان ہی دے سکتا ہے مگر ہمارے ناقص قانونی علم کے مطابق وہ ذمہ دار نہیں ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ فائنل مسودے میں اس نے ایسا کچھ نہ لکھنا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی تسکین کے لئے اپنا غصہ اپنے کمپیوٹر پر اپنی ذاتی ڈاکیومنٹ میں نکال رہا ہو۔ سو توجیہات ہو سکتی ہیں۔

اب فرض کرتے ہیں کہ یہ مسودہ وٹس ایپ پر ویسے ہی شیئر ہونا شروع ہو جاتا ہے جیسے جنرل درانی کی کتاب ہو رہی تھی۔ اس کے بعد اس کا فیصلہ کیسے ہو گا کہ یہ ریحام خان نے پھیلایا ہے یا تحریک انصاف والوں نے؟ اگر ریحام خان کی بات کو مان لیا جائے کہ یہ مسودہ ان کے کمپیوٹر سے چرایا گیا ہے تو اسے پبلک کرنے کی ذمہ داری ان پر کیسے عائد کی جا سکتی ہے؟ اگر حمزہ عباسی کا موقف مان لیا جائے کہ یہ مسودہ ان کے کسی خیر خواہ نے ان تک پہنچایا ہے تو اس بات کا تعین کیسے ہو گا کہ نیٹ پر بھی یہ مسودہ اسی خیر خواہ یا حمزہ عباسی یا دیگر دس بارہ افراد نے نہیں ڈالا ہے؟ یا پھر یا یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی تیسرا شخص ان افراد کے کمپیوٹر کو ہیک کر کے یہ مسودہ ان سے چرا لے اور اسے پبلک کر دے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جو گمنام ذرائع مسودے کو ان افراد تک پہنچانے کا باعث بنے ہیں وہی باقی دنیا کو بھی پہنچا دیں۔ جو راز درجن بھر لوگوں تک پہنچ جائے وہ راز نہیں رہتا ہے۔

یعنی اگر مقصد صرف اور صرف عمران خان کو نقصان پہنچانا ہے تو پھر کتاب شائع ہو یا نہ ہو، لیکن یہ مسودہ لیک ہونے کی خبر کی تیاری پکڑ لیں۔ لیک کرنے کے مجرم کا تعین ناممکن حد تک مشکل ہو گا۔ اور وہ سارے سچے جھوٹے الزامات پبلک ہو کر الیکشن مہم کا حصہ بن جائیں گے جو اس مسودے میں لگائے گئے ہیں۔ اب بڑی حد تک یہ طے ہو گیا ہے کہ مسودہ ریحام نے لکھا ہے، مگر ریحام نے پبلک نہیں کیا۔ یعنی کتاب شائع ہو یا نہ ہو، الزامات وٹس ایپ کی پی ڈی ایف کی صورت میں پبلک ہو جائیں گے اور ریحام مجرم نہیں ٹھہریں گی۔ یہ واقعی پریشان کن صورت حال ہے۔

باقی مواد کا تو ہمیں پتہ نہیں مگر قانونی نوٹس اور دیگر ذرائع کے مطابق وسیم اکرم کی قابل احترام مرحومہ اہلیہ کے متعلق اس میں جو لکھے جانے کی خبر سامنے آ رہی ہے وہ واقعی ناقابل برداشت ہے۔ ان کچی پکی خبروں کی بنیاد پر کئی زندگیاں خراب ہوں گی۔ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ریحام کی کتاب میں ایسا کچھ نہ لکھا گیا ہو۔ اگر کتاب میں واقعی ایسے ہی رکیک الزامات لگائے گئے ہیں تو یہ کتاب بیک فائر کر کے الٹا عمران خان کو فائدہ اور ان کے مخالفین کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar